[]
منور رانا فلم اسٹار شتروگھن سنہاکی آواز کی نقل اس حد تک کرنے لگے کہ حقیقت کا گمان ہونے لگا اور انھیں ’’کلکتہ کا شتروگھن سنہا‘‘ بھی کہا جانے لگا۔
منور رانا کا حقیقی نام سید منور علی ہے۔ وہ 26؍ نومبر، 1952 کو اتر پردیش کے رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید انور علی اور والدہ کا نام عائشہ خاتون ہے۔ منور رانا نے اپنی ابتدائی تعلیم شعیب ودھیالیہ اور گورنمنٹ انٹر کالج، رائے بریلی سے حاصل کی۔ اس کے آگے کی تعلیم کے لیے انھیں لکھنؤ بھیج دیا گیا جہاں ان کا داخلہ سینٹ جانس ہائی اسکول میں ہوا۔ قیام لکھنؤ کے دوران انھوں نے وہاں کے روایتی ماحول سے اپنی زبان و بیان کی بنیادیں پختہ کیں۔ اس کے بعد ان کے والد نے، جو روزگار کے پیش نظر کلکتہ منتقل ہوگئے تھے، انھیں 1968 میں کلکتہ بلا لیا، جہاں انھوں نے محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول سے ہائر سیکنڈری کی تعلیم مکمل کی اور گریجویشن کی ڈگری کے لیے کلکتہ کے ہی امیش چندرا کالج میں بی کام کے لیے داخلہ لے لیا۔
منور رانا کی ادبی شخصیت کو پروان چڑھانے میں لکھنؤ کے ماحول کے علاوہ خاص طور پر ان کے ادب نواز دادا مرحوم سید صادق علی کا گہرا اثر رہا جو ان سے عہد طفلی میں دوسروں کی غزلیں باقاعدہ پڑھوایا کرتے تھے تاکہ ادب میں ان کی دلچسپی بڑھے اور انھیں تحریک ملے، جس نے آگے چل کر حقیقت کی شکل اختیار کر لی۔ شاید اسی ریاضت کا ثمرہ ہے کہ آج بھی منور رانا کو ہزارہا اشعار ازبر ہیں۔
زمانۂ طالب علمی سے ہی فلم اور شاعری ان کی کمزوری رہی۔ پہلے پہل وہ شاعری سے ازحد متاثر تھے لیکن عہد شباب میں اپنے مزاج کی ناہمواری کے باعث ان کی آنکھیں فلم کی مصنوعی چمک دمک سے چکاچوند ہوگئیں۔ لہذا وہ فلم کی طرف مائل ہوگئے۔ اور فلم سے وابستگی کی ٹھان لی۔ جس کی شروعات انھوں نے فلمی اداکاروں کی آوازوں کی نقالی سے کی۔ اس عمل میں منور رانا کئی فلمی اداکاروں کی آوازیں نقل کرنے میں ماہر ہوگئے لیکن فلم اسٹار شتروگھن سنہاکی آواز کی نقل اس حد تک کرنے لگے کہ حقیقت کا گمان ہونے لگا اور انھیں ’’کلکتہ کا شتروگھن سنہا‘‘ بھی کہا جانے لگا۔ انہیں دنوں منور رانا نے کچھ افسانے اور منی کہانیاں بھی لکھیں جو کئی مقامی اخباروں میں شائع ہوئیں۔ چونکہ ان کے سر پر فلم کا آسیب سوار تھا لہذا وہ ڈراموں کی طرف راغب ہوگئے۔ اس طرح 1971 میں انھوں نے اپنا پہلا ڈراما ’’جئے بنگلا دیش‘‘ کلکتہ کے ہومیوپیتھی کالج میں منعقدہ سہ لسانی ڈراما مقابلے کے لیے نہ صرف تحریر کیا بلکہ اس کی ہدایت کاری بھی انجام دی اور جسے انعام یافتہ بھی قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پرتھوی راج اور آغا حشر کاشمیری کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ بالخصوص سجن کمار کی زیر ہدایت آغا حشر کاشمیری کا ڈراما ’’ آنکھ کا نشہ‘‘ میں بینی پرشاد کے مرکزی کردار میں ان کی اداکاری اتنی پسند کی گئی کہ اس ڈراما کے کئی کامیاب شوز منعقد کیے گئے۔ بالآخر انھوں نے فلم اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر جوگندر کی ایک فلم ’’گیتا اور قرآن‘‘ کے لیے کہانی لکھ کر ہی دم لیا، جس کا ٹائٹل اندراج بھی ہوا تھا لیکن کسی وجہ سے یہ فلم نہ بن سکی۔ اس ناکامی کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان کے سر سے فلم کا آسیب ہی اتر گیا اور وہ مغربی بنگال کی تاریخ شاعری کی زندہ روایات کا مستحکم عزم لے میدان شاعری میں آگئے اور اس فن میں غزل کو انھوں نے اپنا وسیلۂ اظہار بنایا۔
گلستان شاعری میں سید منور علی نے خود کو 1969-70میں قلبی واردات ، احساسات اور جذبات کی چنگاری سے ’’منور علی آتش‘‘ بن کر متعارف کرایا۔ اس طرح میدان شعروسخن کے ابتدائی دنوں میں وہ پروفیسر اعزازؔ افضل کے حلقۂ تلمذ میں شامل ہوگئے اور ان سے اکتساب فیض کرتے ہوئے اپنی شعلہ بیانی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ہرچندکہ انھوں نے اپنی عمر کے سولہویں سال میں پہلی نظم کہی جو محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول کے مجلے میں چھپی لیکن بحیثیت شاعر ان کی پہلی تخلیق 1972 میں منور علی آتش کے نام سے کلکتہ کے ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’’شہود‘‘ میں شائع ہوئی۔ آگے چل کر منور رانا نے نازش پرتاپ گڑھی اور رازؔ الہٰ آبادی کے مشوروں سے اپنا تخلص بدلا اور ’’منور علی شاداں‘‘ بن کر غزلیں کہنے لگے۔ بعد ازاں انھوں نے جب والی آسیؔ سے شرف تلمذ حاصل کیا تو ان کے مشورے سے 1977 میں ایک مرتبہ پھر اپنا تخلص بدلا اور ’’منورؔرانا‘‘ بن گئے۔ اس طرح سید منور علی کو منور علی آتش سے منور علی شاداںؔ اور پھر منور رانا بننے تک پورے نو سال کا عرصہ لگ گیا۔ اس مدت میں انھوں نے مشق سخن جاری رکھی اور اپنی فکر کی پرواز کو اوج کمال تک پہنچایا۔(بشکریہ ریختہ)
;