مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے اہل سنت علمائے کرام کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین، لبنان اور شام میں پیش آنے والے واقعات نے یہ واضح کر دیا کہ امت مسلمہ کس طرح ایک ساتھ کھڑی ہے۔ شیعہ اور سنی نہ صرف ایک دوسرے کے بھائی ہیں بلکہ اپنی جانیں بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ امت کی یکجہتی اور وحدت کا دفاع کیا جاسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی خود کو قرآن کریم اور اہل بیت(ع) کا پیروکار سمجھتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اتحاد قائم کرنا سب سے بڑی ذمہ داری اور کسی بھی اقدام کی پہلی شرط ہے۔ اسی لیے ہم پوری یقین دہانی کے ساتھ کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کے حکام خود کو اس راستے پر آگے بڑھنے کا پابند سمجھتے ہیں تاکہ مسلمان ایک مضبوط و متحد قوت بنیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں اس ذمہ داری کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
محمد باقر قالیباف نے کہا کہ ایرانی پارلیمنٹ میں اہل سنت اراکین کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو درپیش ایک اہم چیلنج معاشی بحران ہے۔ امریکہ کی ظالمانہ پابندیاں ہماری اقتصادی صورتحال پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ تاہم ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمیں عالمی سطح پر نہیں بلکہ یہ صرف امریکہ کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں ہیں جو ہمارے لیے مسائل پیدا کررہی ہیں۔
قالیباف نے مزید کہا کہ موجودہ اقتصادی بدحالی صرف وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اصل مسئلہ انتظامی امور میں عدم توازن ہے۔ بجٹ، بینکاری، مالیاتی نظام، توانائی، پانی اور ماحولیات کے شعبوں میں موجود مسائل سے پہلے ہمیں حکومتی نظم و نسق میں موجود عدم توازن پر توجہ دینی چاہیے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی اور اس کے تسلسل کی بنیادی وجہ عوام کا عملی کردار تھا لیکن آج عوام کو اقتصادی عمل سے باہر رکھا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی اداروں کو چاہئے تھا کہ عوام کو معیشت میں شامل کرنے کے لیے سہولت فراہم کریں لیکن بدقسمتی سے ایسا کرنے کے بجائے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ آج بھی ملک کی معیشت کا ایک بڑا حصہ حکومتی کنٹرول میں ہے اور عوامی وسائل کو مکمل طور پر بروئے کار نہیں لایا جاسکا۔
قالیباف نے رہبر انقلاب اسلامی کے حالیہ دورۂ نمائش کے دوران بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم نے واضح کیا کہ نجی شعبے کو سرمایہ کاری کی جدت اور تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر ملکی و بین الاقوامی تجارت میں بھرپور شرکت کرنی چاہیے۔ اسی تناظر میں پارلیمنٹ نے قانون سازی کی ہے تاکہ عوام کو اقتصادی شعبے میں زیادہ مواقع فراہم کیے جاسکیں۔
محمد باقر قالیباف نے کہا کہ ہم موجودہ قوانین کو جدید طریقوں کے ذریعے منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ غیر ضروری قوانین کی پیچیدگی کم ہو اور ان کے مؤثر نفاذ میں آسانی ہو۔ پارلیمنٹ کا بنیادی مقصد حکومت کی حمایت ہے، نہ کہ کسی بھی قسم کی رکاوٹیں کھڑی کرنا۔ اگر کسی قانون میں خامیاں موجود ہیں تو ہم اسے اصلاحات کے ذریعے بہتر کریں گے تاکہ ترقیاتی منصوبے کے عملی نفاذ کے دوران مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔
قالیباف نے ملک میں اہل سنت برادری کے مسائل پر بھی گفتگو کی اور دینی مدارس کی معاونت پر زور دیا۔ رہبر معظم نے ہمیشہ تمام تر صلاحیتوں سے استفادہ کرنے پر زور دیا ہے لہذا اسی بنیاد پر اعلی فوجی قیادت میں بھی تقرریاں کی گئی ہیں۔ جب ہم پولیس فورس میں تھے تو سنی اکثریتی علاقوں کے ضلعی کمانڈرز اہل سنت برادری سے منتخب کیے جاتے تھے۔ آج بھی کئی سنی اکثریتی شہروں میں 90 فیصد سے زائد حکام مقامی سنی برادری سے ہیں۔ اگر کسی جگہ اہل سنت کی ملازمت پر کوئی رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے تو یہ غیر قانونی ہے اور اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔
قالیباف نے سرحدی منڈیوں کے قیام میں درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان منڈیوں سے سب سے زیادہ فائدہ دارالحکومت کے بااثر افراد اور بعض سرکاری ادارے اٹھا رہے ہیں، جبکہ حقیقی حق دار یعنی سرحدی علاقوں کے مقامی لوگ اس سہولت سے محروم ہیں۔ سرحدی منڈیوں کے فوائد میں اولین ترجیح ان ہی افراد کو دی جانی چاہیے جو سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں کیونکہ ان کی معیشت کا انحصار انہی تجارتی سرگرمیوں پر ہے۔
قالیباف نے زور دے کر کہا کہ شیعہ اور سنی برادریوں کے درمیان باہمی احترام کے رشتے کی حفاظت سب کے لیے ضروری ہے اور اس اصول پر تمام حکام مضبوطی سے قائم ہیں۔ ملک کے اندر کسی بھی فرقہ وارانہ توہین یا تفرقہ انگیز عمل کو برداشت نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اگر کہیں کوئی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس کے خلاف سنجیدگی سے کارروائی کی جائے گی۔