[]
از جناب سید حامد۔ سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ۔ چانسلر جامعہ ہمدرد، نئی دہلی
ڈاکٹر محمد اقتدا رحسین فاروقی نے اپنے کیریر کا آغاز پودوں پر تحقیق سے کیا، بالخصوص ان پودوں پر جن کا تذکرہ قرآن یا سنہّ میں ملتا ہے۔ وہاں سے انہوں نے سمت سفر بدلی، نگاہ کو اسلامیات پر مرکوز کیا اور وہ ’’دنیائے اسلام کا عروج وزوال ‘‘ پر ایک شاہکار کتاب وجود میں لے آئے۔
ایک ایسی کتاب سے جو مذہب پر مبنی معاشرہ کا تذکرہ کرتی ہو یہ خطرہ درپیش رہتا ہے کہ سائنسی تجربہ دب جائے گا اور زور بیان اور انداز فصاحت کتاب پر چھا جائے گا۔ ہمارے لئے یہ با ت اطمینان بخش ہے کہ ڈاکٹر فاروقی اپنی سائنسی تربیت کے باعث اس خطرہ سے بچ کر نکل گئے۔
دیدہ ور قاری کو اس کتاب میں سائنسی مزاج، دینی نقطۂ نظر کے ساتھ دست وگریباں نظر آئے گا۔ دست وگریباں بھی کیوں کہئے، فاضل مصنف کا نظریہ تو یہی ہے کہ اسلام کو سائنس سے کوئی بیر ہے ہی نہیں۔ اس کے ہیرو سرسید کا کہنا تھا کہ قدرت خدائے بزرگ وبرتر کا عمل ہے اور قرآن اس کا قول۔ اس لئے ان دونوں میں باہم کوئی اختلاف ہو ہی نہیں سکتا۔
مصنف نے اسلام کے اوائل سے لے کر اب تک اس کے جملہ کارناموں کو انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ ہم ستائش انگیز حیرت کے ساتھ اس وسیع کائنات کا تصور کرسکتے ہیں، جس کو دیدہ ور مصنف نے اپنی گرفت میں لیا ہے اور اس بے درد انتخاب کو داد دے سکتے ہیں، جو اس تصنیف میں مندرج مواد کے ضمن میں کارفرما رہا ہے۔ قاری کو وہ سخت گیر سائنسی زاویہ نگاہ بھی متاثر کرتا ہے، جس کے شواہد ہر صفحہ پر ملتے ہیں۔
ہر چند کہ مصنف کو سروکار تاریخ، مذہب اور معاشرہ سے ہے تاہم زور بیان اور زیب داستان کی پرچھائیں بھی طرز تحریر پر پڑنے نہیں پائی۔ پرخروش ہونا درکنار مصنف نے خود کو کہیں نمایاں ہونے نہیں دیا۔ مصنف نے خود کو پس منظر میں رکھا ہے اور دوسری اقلیموں اور زمانوں کے مفکرین کو اپنی مدد کے لئے طلب کیا ہے۔ یہ اسلوب اس دستاویزی انداز سے ہم آہنگ ہے، جو فاضل مصنف نے سنجیدگی اور اعتبار کی خاطر اختیار کیا ہے۔
زیر نظر کتاب معلومات کو نہ صرف یکجا کرتی ہے، نہ صرف اس کو ترتیب دیتی ہے بلکہ وہ اسلام کو دوسرے ادیان و مذاہب کے پہلو میں معنیٰ خیز انداز سے رکھتی ہے۔ یہ اسلوب اسلامی معاشرہ کا دوسری سوسائٹیوں سے ڈرامائی انداز میں خاموش موازنہ کرتا ہے اور دکھاتا ہے کہ زمان ومکاں کی تبدیلی سے ان کے باہمی تعلقات میں کیا کیا تغیرات ہوتے رہے۔ اسی نوع کے تجزیہ سے برآمد ہوتے ہیں اسلام کے زوال کے اسباب۔
قاری جب ایسی کتاب کے اوراق پلٹتا ہے، علم نے جسے گرانبار کردیا ہے تو وہ لا محالہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ وہ مذہب جو فطرتاً توانائی سے اس قدر بھرپور تھا اور جس نے ہر قدم پر مذہب سے طاقت اخذ کی تھی، جیوں ہی وہ اپنی بنیادوں سے ہٹے گا زوال کی گرفت میں آجائے گا۔ حادثات سے مملو اپنے سفر میں کسی مقام پر اس نے جستجو کو خیر باد کہہ دیا، اس جستجو کو جس کے بازوؤں پر وہ آغاز داستان سے نامعلوم اقلیم میں پرواز کرتا رہا تھا۔ نتیجہ ظاہر ہے وہ جمود اور توہمات اور کسلمندی اور تقلید کا شکار ہوکر رہ گیا۔
مصنف نے اسلام کی تاریخ کا نگاہ غائر سے مطالعہ کیا ہے، اور اپنی کتاب میں ان اوصاف کو اختیار کرنے کی خاموش اپیل کی ہے، جو اس کے عروج کے ذمہ دار تھے۔ ا س نے ان خصوصیات کی کھوج بھی لگائی جو اسلام کے لئے مضرت رساں ثابت ہوئے، اور جن سے گریز بہرحال ضروری ہے۔
زیر نظر کتاب دو مراکز پر مبنی ہے: اسلام کا اچانک عروج اور اس کا تیز رو زوال- اگر عالمی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام کے لئے سب سے زیادہ مضرت رساں یہ روش تھی کہ اس نے آئے دن ہونے والے تغیرات کو نظر انداز کردیا اور ان سے عہدہ برآں ہونے کی کوشش نہیں کی۔ کتاب کا مرکزی حصہ اس کا وہ باب ہے جس کو سرخی دی گئی ہے ’’احتساب عروج وزوال اسلامی اور اجتہاد‘‘۔
مصنف نے اجتہاد کی تشریح اس طرح کی ہے ’’قرآن اورسنت کی روشنی میں شریعت کی جدید تعمیر- اس کی نظر میں اجتہاد کی حیثیت ایک ایسے اوزار کی ہے، جو توسط سے معاشرہ زمانہ کے نت نئے تعمیرات سے عہدہ برآں ہوسکے۔‘‘
یہ بات عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ ترک اجتہاد کا انجام جمود تھا پھر بھی علمائے کرام اجتہاد کے ابواب کھولنے پر راضی نہیں ہوئے، انہیں یہ فکر دامن گیر رہی کہ جوش کے آگے کہیں ہوش پسپا نہ ہوجائے۔ غیر عرب علماء کے ہاتھوں میں اجتہاد میں ایک خطرہ یہ ہے کہ انہیں عربی زبان اور محاورہ پر اہل زبان کی سی قدرت میسر نہیں ہے اور مختلف ممالک شرع کے مختلف مسائل سے دوچار ہیں۔
ڈاکٹر فاروقی بہت خاموشی کے ساتھ بیش قیمت اور بہت اہم کام انجام دے رہے ہیں۔ ان کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ جو فاصلہ مسلمانوں نے اپنے اور سائنس اور ٹکنالوجی کے درمیان حائل کرلیا ہے، وہ ایک بہت بڑی محرومی ہے۔ انہوں نے ہمیں بروقت متنبہ کردیا ہے۔ یہ کتاب ان متبادلات کو جلی حروف میں سامنے لے آئی ہے، جن پر ہماری حیات و ممات کا انحصار ہے۔ متبادلات واضح ہیں۔
علم حاصل کرو یا فنا ہوجاؤ، یہ وہ سبق ہے، جسے منچ اور منبر سے بار بار دوہرانا چاہئے۔ ضرورت ہے کہ اس کی گونج میڈیا میں ہمیشہ سنائی دے۔ ڈاکٹر فاروقی ایک معروف سائنسداں ہیں، لہٰذا ان کا انداز بیان تجزیہ پر مبنی ہے۔ دراصل ہمیں فصاحت وبلاغت سے کہیں زیادہ ضرورت ہے تجزیاتی انداز نظر اور اسلوب نگارش کی۔
پایان گفتگو میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ڈاکٹر فاروقی نے قاری کا دامن بہت قیمتی اوراہم معلومات سے بھردیا ہے اور اس کے ذہن نشین کردیا ہے کہ اسلام نے سنین و شہور سے وقتاً فوقتاً ٹکر کس طرح لی اور اب وہ ایک دوسری نشاۃ ثانیہ کی تیاری کرے تو کیونکر۔