[]
مہر خبررساں ایجنسی، میگزین ڈیسک– زینب رجایی: آج سے بیس سال پہلے نم میں زلزلہ آیا۔ پورا شہر منٹوں میں خاک کا ڈھیر بن گیا جبکہ اس کے نزدیکی گاوں میں کچھ بھی نقصان نہیں ہوا تھا۔۔ بہت سارے لوگوں نے جنازوں کو کونے میں رکھ رسی وغیرہ سے باندھ رکھا تھا تاکہ کوئی غلطی سے اٹھاکر نہ لے جائے۔ ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنے کے لئے کوئی چارہ نہیں تھا صرف حسرت بھری نگاہ سے ملبے کو دیکھ سکتے تھے۔
کرمان میں شہید ہونے والوں کی تعداد 90 کی حدوں کو چھورہی ہے۔ کئی خاندانوں کے شہداء کی تعداد ایک سے زیادہ ہیں۔ صبح دس بجے کرمان کے شہری آرام اور سکون کے ساتھ مصلای امام علی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ تشییع جنازہ سے پہلی رات کو بار بار اعلان کیا جارہا تھا کہ تشییع جنازہ میں صرف شہداء کے لواحقین شرکت کریں گے باقی لوگ مصلی کی طرف چلیں گے۔ مصلی کی طرف جانے والے راستوں پر سیکورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
مصلی میں داخل ہونے کے دو مرکزی گیٹ ہیں۔ گیٹ نمبر دو پر داخلے کے دوران باریک بینی سے تلاشی لی جارہی تھی۔ اپنے ہمراہ لائے پانی کے بوتل میں سے ایک قطرہ پانی پینا ضروری تھا اسی طرح کھانے والی چیزوں کو لانے والے کو کچھ مقدار کھانا پڑتا تھا۔ جوتوں کو ایڑیوں اور نوک سے زمین سے مارنے کا حکم دے رہے تھے تاکہ اندر مشکوک مواد نہ ہونے کا یقین ہوجائے۔ ان سارے مراحل سے گزرنے کے بعد سیکورٹی اہلکار مطمئن نہیں تھے۔ پرس میں موبائل چارجر دیکھنے کے بعد کہنے لگا کہ اندر لے جانا ممنوع ہے لہذا سکیننگ والے دروازے سے گزارنا پڑے گا۔
مصلی کا چکر لگانے کے بعد گیٹ نمبر ایک سے داخل ہوا۔ لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی۔ اگر بدھ کے دن حملے میں ملوث ہونے والوں کی گرفتاری کی خبر پھیل جاتی اور تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا تھا۔۔ شہداء کی تصاویر لوگوں کے ہاتھوں میں تھیں۔ ہر ستون کے ساتھ کسی شہید کے غم میں سوگوار خاندان کا کوئی فرد تھا۔ غموں سے چور افراد کے درمیان مائیں، بہنیں، بیویاں اور دیگر عورتیں بھی تھیں۔ میڈیا کے نمائندے ہاتھوں میں کیمرے اور مائیک اٹھاکر ان کے پاس جاتے لیکن کوئی کچھ کہنے کو تیار نہیں تھا۔ سب گریہ و زاری کے لئے تنہائی ڈھونڈ رہے تھے۔ بعض اپنے دلوں کو مضبوط کرتے ہوئے کچھ بولنے کی کوشش کررہے تھے لیکن ایک یا دو جملے بس!
ان لوگوں کے نزدیک رہنا نہایت سخت کام تھا۔ ہر سوال پر ان کا غم تازہ بلکہ مزید اضافہ ہوجاتا تھا۔ کیا سوال کیا جاتا؟ کس کو کھویا؟ کیا کام کرتا تھا؟ کتنے سال کا تھا؟ جنازہ ملا؟ شناخت کے قابل تھا؟ اس کے کتنی محبت تھی؟ ان سوالوں کے بعد اپنے پیشے سے نفرت سی ہوتی تھی۔
ایک عورت کی گود میں بچہ تھا جس کے ہاتھ میں ایک پولیس اہلکار کی تصویر تھی۔ شہید محمد پور شیخ علی کے علاوہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مزید دو اہلکار مہدی علوی اور رضا مداح بھی شہید ہوگئے تھے۔ جوان عورت بچے کے ساتھ اشک بہارہی تھی۔ میں پوچھا تو بولا میرا بھائی اور جگر کا ٹکڑا تھا۔ بھائی کا داغ بہت گہرا ہوتا ہے۔ میرے سوالات کا جواب نہ دے سکی۔ کاش میں سوال نہ کرتی اور گونگی ہوجاتی۔
ایک چھوٹی بچی اپنی دادی کی گود میں سر رکھے بے فکر بیٹھی تھی شاید اس بڑی مصیبت کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔ بابا روزانہ ٹافی اور چاکلیٹ کے ساتھ گھر آتا تھا لیکن آج کیوں میرے سامنے خاموش لیٹا ہوا ہے۔ کب اٹھے گا اور مجھ سے دوبارہ پیار کرے گا۔
بچی سے سوال کرنے کا دل نہیں کیا کیوںکہ جواب نہیں دے سکتی ہے شاید بولے گی کہ میرا بابا آسمان کی طرف پرواز کرگیا جبکہ اس کو معلوم نہیں کہ آسمان کی طرف جانے سے واپسی نہیں ہوتی۔
مصلی کے صحن میں شہداء کی لاشوں پر نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اور ایک بار پھر لوگوں سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ تدفین کے لیے کرمان کے شہداء کی معراج پر نہ آئیں۔ معراج شہداء ایک پہاڑ کے دامن میں ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے آپ کو فاریسٹ پارک سے گزرنا پڑتا ہے۔ فاریسٹ پارک سے کئی کلومیٹردور ٹریفک کو روک دیا گیا ہے تمام داخلی راستے کاروں کے لیے مکمل طور پر بند ہیں۔ یہاں تک کہ رنگین لائسنس پلیٹ والی کاریں بھی داخل نہیں ہو سکتیں۔ شہداء کے اہل خانہ کو تقریبا تیس سے زیادہ بسوں کے ذریعے لایا گیا تھا۔
اگرچہ عوام کو کئی بار کہا گیا ہے کہ وہ معراج پر نہ آئیں، لیکن بہت سے لوگ گاڑی کے ذریعے جہاں تک ہو سکے آئے اور وہاں سے پیدل چل کر شہداء کے جسد خاکی کے قریب پہنچے۔ ہر اندراج اور ہر چوکی سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جنگل کے پارک میں آخری چوک پر ایک گھنٹہ دروازے پر دستک دینے اور شارٹ کٹ لینے کے بعد میں معراج کے ساتھ والی قبر کے درمیان حسینیہ کے علاقے میں پہنچ گیا۔
ہر طرف قیامت کا منظر تھا۔ مجھے یقین ہے کہ چیخ و پکار کی آواز ساتویں آسمان تک سنائی دے گی۔ سیاہ لباس میں ملبوس اور گیلے چہروں والے لوگوں کے کندھوں پر یکے بعد دیگرے شہداء کے تابوت تیر رہے ہیں۔ ہجوم اتنا بڑا نہیں ہے، لیکن ہر تابوت کے قریب بھیڑ دم توڑ رہی ہے۔ امدادی کارکنوں کو ایک لمحہ بھی آرام نہیں ہے۔ ہر منٹ میں انہیں میت کو اسٹریچر پر ڈال کر لے جانا پڑتا ہے اور اگلے شخص کے لیے آنا پڑتا ہے۔
شہداء کو حسینیہ سے متصل ایک بڑے ہال میں لے جایا گیا تاکہ وہاں گھر والوں کو باری باری بلائیں وہ آئیں اور اپنے پیاروں کی میت لے کر حسینیہ لے جائیں اور آخری وقت تک ان کے ساتھ رہیں۔ . یقینا، وہ نہیں جانتے کہ اس میں سے کتنا بچا ہے۔ ایک 10 سالہ لڑکا ایک آدمی کے کندھے پر تابوت پکڑے ہوئے ہے اور مسلسل اور بے صبری سے چلا رہا ہے: بابا۔۔۔ بابا۔۔۔ بابا۔۔۔ مت جاؤ… دوسری طرف ایک ماں اپنے لخت جگر سے جدا نہیں ہورہی ہے۔۔۔ خدا۔۔۔ میرا بیٹا۔۔۔۔ میرا لخت جگر۔۔۔ خدا کو ایسے دل دہلا دینے والے اور مسلسل انداز میں پکارتا ہے۔
آخر میں تمام تابوت بڑے ہال میں پہنچ جاتے ہیں جو معراج کے مرکزی حسینیہ کے ساتھ کئی کھڑکیوں سے منسلک ہے۔ میں ہال میں موجود تابوتوں میں سے ایک کے سائے میں خود کو گرانا چاہتی ہوں، لیکن وہ مجھے روکتے ہیں: “نہیں، میڈم؛ صرف خاندان والوں کو اجازت ہے اصرار اور صحافی کارڈ اور لائسنس بھی بے کار ہیں۔ آخر میں، میں کہتی ہوں: “میں دو راتوں سے ان خاندانوں کی طرح نہیں سوئی میں تہران سے ان شہداء کی مظلومیت پر لکھنے آئی ہوں۔ مجھے اندر نہ آنے دیں تو میں ان شہیدوں سے شکایت کروں گی۔
دوپہر کے تقریباً دو بجے ہیں اور خاندان اس ہال کے ساتھ ہی حسینیہ میں ان کے نام پکارے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ لاؤڈ سپیکر سے بولنے والا شخص سوگواروں کو صبر کی دعوت دیتا ہے۔ میں شہیدوں کے درمیان آہستہ آہستہ چلتی ہوں اور نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظریں “ریحانہ” کے نام کو تلاش کرتی ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جب میں نے فرانزک ڈاکٹر کے دروازے پر ایک تصویر تہران بھیجی جو دوسری تصاویر کے ساتھ لگی ہوئی تھی، اور میں نے ریحانہ کے نام کے گرد ایک سرخ لکیر کھینچی اور لکھا: “گلابی جیکٹ والی دو سالہ بچی” سوشل میڈیا، نیوز چینلز اور ہر اجتماعی محافل میں شہداء کی بات ہورہی ہے لیکن ریحانہ ان میں سرفہرست ہے۔
میں بہت تلاش کررہی ہوں لیکن مجھے یہ نہیں ملتی۔ میں سوچتی ہوں کہ ریحانہ کا تابوت چھوٹا ہے اس لئے دکھائی نہیں دے رہا! میں فوجیوں سے پوچھتا ہوں: “معاف کیجئے گا۔ ریحانہ… ریحانہ کون سی ہے؟ چند لوگ بغیر توقف کے میری طرف اشارہ کرتے ہیں۔ میرے خیال میں انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ وہ سب سے ہلکا تابوت کون سا ہے جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ اب ریحانہ کی اصل تصویر مل گئی ہے، جو مصنوعی ذہانت کے تمام اندازوں سے زیادہ حقیقی اور خوبصورت ہے۔