[]
حمید عادل
پچھلے دنوں عجب معاملہ ہوا، گلا جو اچھا بھلا کھڑا تھا، نزلے کے نزول سے اچانک بیٹھ گیا اور بیٹھا بھی ایساکہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا… ہمارا ہر حربہ ، ہر ٹوٹکا ناکام ہوا، آواز اس قدر بھاری ہوچلی تھی کہ محسوس ہورہا تھا جیسے آنجہانی امریش پوری ہمارے گلے میں سما گئے ہوں… ہمارادل جو فلم ’’ دبنگ‘‘ کے چلبل پانڈے سے کم نہیں،بار بار ہمیں اکسا رہا تھا کہ ہم وقت بے وقت ’’ موکیمبو خوش ہوا ‘‘ کا نعرہ مارتے رہیں … مزے کی بات تو یہ تھی کہ ہم بات بات پر ’’ موکیمبو خوش ہوا‘ ‘ کہہ کر خوش بھی ہو رہے تھے… ہم مذکورہ تکیہ کلام کہنے کے اس قدر عادی ہوگئے کہ پھول بانو نے جب ہم سے کہا کہ وہ کچن میں پھسل کر گر گئی ہیں تو ہم فوری چہک اٹھے ’’ موکیمبو خوش ہوا‘‘ … وہ ہم سے اس قدر ناراض ہوئیں کہ ہم ’’ موکیمبو خوش ہوا‘‘ کہنا بھول گئے …
دوستو!گلے کا بیٹھنا ، دل کے بیٹھنے جیسا تو نہیں ہوتا، لیکن جب یہ بیٹھتا ہے تو ساری دنیا کو پتا چل جاتا ہے جب کہ دل کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا… ہمارے گلے میں خراش اس قدر تھی کہ لگتا گلے کو ہم سے کوئی گلہ ہے،ایک طرفبیٹھے ہوئے گلے سے ہمارا دل بیٹھا جارہا تھا تو دوسری طرف ہم کسی سے بات کرتے ہوئے شرم سے پانی پانی ہوئے جارہے تھے کیوں کہ ہم اپنی اصلی آواز گنوا بیٹھے تھے…
جب ہم نے مشکوک حیدرآبادی سے کہا کہ کوئی ایسا نسخہ بتاؤ کہ ہمارا گلا اٹھ کر کھڑا ہوجائے تو مشکوک کسی نام نہاد مفکر کی طرح کہنے لگے ’’ بیٹھے ہوئے گلے کو اٹھانے کا ایک ہی آئیڈیا فی الحال میری سمجھ میں آرہا ہے ۔‘‘
’’ وہ کیا؟‘‘ ہم نے بے چین ہوکر پوچھا۔
’’ اپنا گلا کاٹنے کی نیت کرلو۔‘‘
’’ کیا بک رہے ہو؟‘‘
’’میں صرف نیت کرنے کے لیے کہہ رہا ہوں ، گلا کاٹنے کے لیے نہیں!‘‘مشکوک نے وضاحت کی اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ’’ عین ممکن ہے کہ تمہاری اس نیت سے گھبرا کر تمہاراگلا فوری اٹھ کر کھڑا ہو جائے ۔‘‘
’’ اور اگرپھر بھی نہ اٹھے تو؟‘‘ہم نے خدشہ ظاہر کیا۔
ارے کیسے نہیں اٹھے گا، ضرور اٹھے گا…کیا تم نے ہندی فلموں میں نہیں دیکھا، کسی لنگڑے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اسے اس قدر دہشت زدہ کردیا جاتا ہے کہ وہ بے ساختہ اٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے … میری بات غور سے سنو،تم چھری کوگلے کے اس قدر قریب لے جاؤ کہ تمہارے گلے کے چھکے چھوٹ جائیں اور وہ فوری اٹھ جائے ۔‘‘
’’ اور اگر اس پربھی وہ کم بخت نہ اٹھا تو؟‘‘
’’تو پھراپنے گلے پر چھری پھیر دو،ایسے نامراد بیٹھے ہوئے گلے کو ساتھ لے کر پھرنے سے تو دنیا سے ’’اٹھ‘‘ جانا بہتر ہے!‘‘مشکوک حیدرآبادی نے بیزارگی کا اظہار کرڈالا۔
مشکوک حیدرآبادی کا مشورہ قابل عمل نہیں تھا، اس لیے اسے ہم نے خاطر میں نہیں لایا …ہماری آواز اس قدر بھاری ہوچکی تھیکہ ہم بات کرتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے ہم صرف ہونٹ ہلا رہے ہیں اور پلے بیاک کوئی اور دے رہا ہے ۔ کبھی محسوس ہوتا، الفاظ توہمارے ہیں اور آواز آنجہانی امریش پوری کی ہے تو کبھی محسوس ہوتاہمارے گلے میں آنجہانی راجکمار براجمان ہیں تو کبھی لگتا کہ آنجہانی پرتھوری راج کپور کی آتماہم میں رچ بس گئی ہے۔ ان عظیم اداکارؤں کی آواز ہمارے حلق سے برآمد ہوتی تو ہمیں بڑا لطف آتالیکن پھول بانو ہماری طرف پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتیں اور کہتیں کہ ہم فوری جھٹ پٹ بابا کے پاس چلے جائیں تاکہ جن عظیم آنجہانی اداکارؤں کی آواز نے ہمارے حلق پر قبضہ جما رکھا ہے ، وہ انہیں چلتا کر سکیں…
ایک دفعہ تو غضب ہی ہوگیا، ہمارے بیٹھے ہوئے گلے سے پریم چوپڑہ کی آواز نکلنے لگی۔اس آواز کو سن کر بچے ہمیںدیکھتے ہی بھاگنے لگے تو پھول بانو ہم سے کترانے لگیں۔ دراصل اس سچویشن کے ہم خود ذمے دار تھے۔ہوا یوں کہ ہم نے ازراہ مذاق پریم چوپڑہ کی آواز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو چار بار ’’ پریم نام ہے میرا پریم چوپڑہ‘‘ کامکالمہ دہرادیا تھا۔فلم ’’ بابی‘‘ کے اس سوپر ہٹ مکالمے کا پھول بانو پر اس قدر گہرا اثر ہواتھاکہ وہ سمجھ بیٹھیں کہ پریم چوپڑہ کی آتما ہمارے اندربس چکی ہے، ہم نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ ’’ بیگم!پریم چوپڑہ کی آتما کیسے ہمارے اندر گھس سکتی ہے ؟ ابھی وہ بیچارے خیر سے زندہ ہیں!‘‘ لیکن پھول بانو کو ہماری بات پر یقین نہیں آرہا تھا…گھر کے حالات اس وقت معمول پر آئے جب ہمارے ’’بیٹھے ‘‘ہوئے گلے سے عامر خان کی آواز آنے لگی!
ہمارے گلے کو بیٹھ کر دو ہفتے گزر چکے تھے اور اس دوران ہم اپنی اصلی آواز بھول چکے تھے۔ایسا بھی نہیں تھا کہ ہمارے بیٹھے ہوئے گلے سے معروف فلمی اداکارؤں کی آوازیں ہی نکلا کرتی تھیں۔اکثر و بیشتر ہمارے حلق سے گفتگو کے دوران اچانک ایسی ایسی عجیب و غریب آوازیں نکلتیں کہ ہم بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوجاتے۔کیا کہا؟ کس قسم کی آوازیں؟ لگتا ہے آپ بھی ہماری حالت پر ہنسنا چاہتے ہیں تو سن لیجئے، ہم بات کرتے تو کبھی چڑیا کی چہچہاہٹ برآمد ہوتی تو کبھی ہم اپنامنہ کھولتے تو محسوس ہوتا دو بلیاں آپس میںلڑ جھگڑرہی ہیں یا پھر کبھی کتوں کے ان پلوں کی آوازیں ہمارے منہ سے برآمد ہوتیں جن کی ابھی آنکھیں بھی نہیں کھلی ہیں!کبھی ایسابھی ہوتا کہ آواز کے بدلے ہمارے منہ سے محض ہوا باہر آتی اور ہمارے سمجھدار دوست احباب ہوا کی لہروں کو محسوس کرکے تاڑ لیتے کہ ہم کہنا کیاچاہتے ہیں !
ہمارے تمام دوستوں کو ہماری حالت کا علم ہوگیا تھا لیکن چمن بیگ سے ملاقات ہوئے ایک عرصہ ہوچکا تھا، سوچا کہ فون ہی پر ان سے بات کرلیں …ہم نے بیٹھے ہوئے گلے کے ساتھ سل فون اٹھایا اورچمن بیگ کا نمبر ڈائیل کردیا…’’ امریش پوریانہ‘‘ آواز سنتے ہی وہ بری طرح سے بدک گئے اور فوری ہماری کال کٹ کردی، ہم نے دوبارہ فون کیا، بہت دیر تک گھنٹی بجتی رہی لیکن انہوں نے ہماری کال ریسیونہیں کی ، تیسری بار ہم نے کوشش کی تو ایک نسوانی آواز ہمیں یہ پیام سنا رہی تھی کہ ’’
The number you are calling is currently switched off please try later
ہم سمجھ گئے کہ چمن بیگ نے گھبرا کر اپنا فون سوئچ آف کردیا ہے ،انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ جس نمبر سے انہیں ’’امریش پوریانہ‘‘ آواز آرہی ہے وہ کسی ویلن کے سل نمبر سے نہیں بلکہ ان کے عزیز دوست کے نمبرسے آرہی ہے …ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کیا ہماری آواز واقعی اس قدر خوفناک ہوگئی ہے کہ سننے والے کی سوچ مفلوج ہوجائے اور وہ گھبرا کر فون سوئچ آف کردے …. بلاشبہ آواز کا بھی اپناجادو ہوتا ہے ،کسی کی آواز دل میں اتر جاتی ہے تو کسی کی آواز دل کو چھلنی کرجاتی ہے … مارشل آرٹس کے کراٹے طلبا مخالف کو چونکانے، ڈرانے یا پھر اعتمادیا فتح کا اظہار کرنے کے لیے مخصو ص آوازوں کا استعمال کرتے ہیں، جسے KIAI کہا جاتا ہے…یہ ایک ایسی مضبوط تکنیک ہے کہ پھیپھڑوں سے ہوا کے اخراج میں مدد کرتی ہے اور جسم کے اوپری حصے کو آرام دیتی ہے تاکہ مخالف پر وارزیادہ موثر ہو…
خیر…
دریں اثنا ایک آئیڈیا ہمارے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا، ایک طویل عرصے سے گبرو پہلوان ہماری رقم لوٹا نہیں رہے تھے،جب بھی ہم سوال کرتے ، یہی جواب ملتا ’’ وہ کتنے ہیں ، دس ہزار ناں، دیدیں گے، بھاگ جارے کیا؟‘‘ وہ تو واقعی نہیں بھاگے ،البتہ ہم انہیں دیکھتے ہی بھاگنے لگے تھے … کیوں کہ رقم کا سوال کرتے ہی انہوں نے دھمکیاں دینی شروع کردی تھیں…
ہمارے ذہن میں وارد ہونے والا آئیڈیا اس قدر دلچسپ تھا کہ ہم بے ساختہ مونچھوں ہی مونچھوں میں مسکرااٹھے …ہم نے گبرو پہلوان کا نمبر ڈائیل کیا ، گھنٹی بجی اور پہلوان کی کرخت آواز ہماری سماعت سے ٹکرائی ’’بے شرم! میری گالیاں سننے کے بعد بھی پھرسے فون کردیا تو ۔ ‘‘ ہم نے اپنے بیٹھے ہوئے گلے کی گرجدار آواز کا بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے درشت لہجے میں کہا ’’اگر تو نے ایک بھی گالی منہ سے نکالی تو تیرے گھر والے تجھے گلی گلی ڈھونڈتے پھریں گے گبرو …اور تیری لاش بھی انہیں نہیں ملے گی۔‘‘ ہمارے تلخ اور گرجدارلہجے کو سن کر گبرو منمنانے لگا ’’ تم کون ہو بھائی ؟یہ نمبر تو حمید عادل کا ہے ناں۔‘‘
’’نمبر تو حمید عادل کا ہے لیکن میں دس نمبری بات کررہا ہوں اورتیرے لیے صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ جرم کی دنیا کے اے ٹو زیڈ غنڈے میرا نام سنتے ہی پناہ مانگتے ہیں … نام سنے گا تو سانس لینا بھول جائے گا، اس لیے اپنا نام نہیں بتارہا ہوں۔ ‘‘اور پھر قدرے توقف سے ہم نے کہا ’’ میں جرم کی دنیا کا ’’ بھائی‘‘ بات کررہا ہوں اور حمید عادل ، میرے بھائی جیسا ہے …سنا ہے ایک عرصے سے تواس کے دس ہزار روپئے نہیں لوٹا رہا ہے اورمطالبہ کرنے پر اسے دھمکیوں سے نوازتا ہے …‘‘
گبرو پہلوان نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ کہا ’’ ارے نہیں بھائی !میں تو مذاق کرلیتا ہوں ۔‘‘
’’مذاق تو میں بھی کرلیتا ہوں اور میں جس سے مذاق کرتا ہوں و ہ دنیا میں نظر نہیں آتا…ایک گھنٹے کے اندر اگر تونے حمید عادل کی رقم نہیں لوٹائی تو پھراپنے انجام کا تو خود ذمے دار ہوگا۔‘‘
’’ میں دیدوں گا بھائی ! میں دیدوںگا، میں حمید عادل سے بالمشافہ مل کر معافی بھی چاہ لوں گا۔‘‘
’’ خبردار!اس سے بالمشافہ ملنے کی حماقت نہ کرنا…‘‘
’’ کیوں بھائی ؟‘‘
’’ سوال مت کر کم ظرف، جتنا تجھ سے کہا جارہا ہے اتنا ہی کر۔‘‘
’’ ٹھیک ہے بھائی ، ٹھیک ہے ، بولیے بھائی ۔‘‘
’’تو دس ہزار روپئے کا پیاکٹ حمید عادل کے گھر کے دروازے پر رکھے گا اور ڈور بیل بجا کر رفو چکر ہوجائے گا،پلٹ کر دیکھے گا بھی نہیں …‘‘
’’ نہیں دیکھوں گا بھائی ، نہیں دیکھوں گا۔‘‘ گبرو نے یقین دہانی کروائی۔
’’یہ ہوئی سمجھداری کی بات ۔‘‘اور پھر ہم نے گبرو پر رعب جھاڑنے کی خاطر ایک طویل طوفانی قہقہہ لگایااور فون پر باتوں کا سلسلہ منقطع کردیا…
ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا ، کسی نے ہمارے گھر کی گھنٹی بجائی، ہم نے دروازہ کھولا تو دہلیز پر ایک پیاکٹ پڑا پایا،جس میںپورے دس ہزار روپئے تھے،جسے پاکر ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا … پہلے پہل تو ہمیں اپنے بیٹھے ہوئے گلے سے گلہ تھا لیکن اپنی رقم کو پاکر یہ خواہش سر ابھارنے لگی کہ ہمارا گلا یوں ہی بیٹھا رہے …
گلہ بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ
باصر سلطان کاظمی
۰۰۰٭٭٭۰۰۰