[]
ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی
آزادی کی تحریک کے دوران اس طرح کے اشعار بڑے زور و شور سے سنائے جاتے تھے کہ
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اور آج جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی غلط حکمرانی کی وجہ سے ہم ایک طرح کی غلامی کے دور میں داخل ہوگئے ہیں تو ایسے میں انڈیا بلاک کے قائدین یہ کہنے پر مجبو رہوگئے ہیں کہ ہم جمہوریت کو بچانے کے لئے سرکٹائیں گے لیکن سر نہیں جھکائیں گے۔ اپوزیشن کے مضبوط اتحاد کو کمزور کرنے کے لئے مودی سرکار انڈیا بلاک کے دو چیف منسٹرس اور دو ڈپٹی چیف منسٹرس کو گرفتار کرسکتی ہے۔ دلی کے چیف منسٹر کیجریوال ، جھارکھنڈ کے چیف منسٹر شیبھو سورین ، بہار کے ڈپٹی چیف منسٹر تیجسوی یادو اور کرناٹک کے ڈپٹی چیف منسٹر شیو کمار ، ای ڈی کے راڈار پر ہیں۔ انہیں اب تک کئی بار سمن بھیجے جاچکے ہیں اور ان کو ہراساں کرنے کے لئے گرفتار بھی کرلیا جاسکتا ہے۔ یہ چاروں قائدین بڑے ہی نڈر پن کے ساتھ اس صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کا یہ عزم ہے کہ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے جائیں گے لیکن ظلم کے خلاف نہیں جھکیں گے۔ اس دوران 7؍ستمبر 2022 سے 30؍جنوری 2023 تک بھارت جوڑو یاترا کی تاریخ ساز کامیابی کے بعد راہول گاندھی نے بھارت نیائے یاترا چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ یاترا 14؍جنوری سے لے کر 28؍مارچ تک مشرقی ہند سے لے کر مغربی ہند کا احاطہ کرے گی۔ 65 روز کے طویل سفر کے دوران 6200 کلو میٹر کا فاصلہ طئے کیا جائے گا۔ اس یاترا کے دوران 14 ریاستیں اور 85 اضلاع کا احاطہ ہوگا۔ 2024 کے لوک سبھا کے انتخابات کے پیش نظر یہ یاترا بس کے ذریعہ چلائی جائے گی ۔ کئی جگہوں پر پیدل یاترا بھی ہوگی۔ یاترا منی پور سے شروع ہوکر ممبئی پر ختم ہوگی۔ 14 ریاستیں یعنی منی پور‘ ناگالینڈ‘ آسام ‘ میگھالیہ‘ مغربی بنگال ‘ بہار‘ جھارکھنڈ‘ اڈیشہ‘ چھتیس گڑھ ‘ اترپردیش‘ مدھیہ پردیش‘ راجستھان‘ گجرات اور مہاراشٹرا اس یاترا میں شامل رہیں گے۔ یاترا کے دوران راہول گاندھی نوجوانوں ‘ بزرگوں ‘ خواتین اور پسماندہ طبقات کے لوگوں سے تبادلہ خیال کریں گے اور ان سے پوچھیں گے کہ ملک کو کس طرح سے کامیاب راستے پر ڈالا جاسکتا ہے۔ یاترا منی پور کے لوگوں کے زخموں پر مرحم رکھنے کی کوشش بھی کرے گی ۔ ان کو یہ احساس دلایا جائے گا دکھ اور درد کی گھڑی میں ساری قوم ان کے ساتھ ہے۔ راہول گاندھی نفرت کے ماحول کو پیار اور محبت کے ماحول میں بدلنے کے لئے انتھک جدوجہد کریں گے۔ اس بات کا امکا ن ہے کہ انڈیا الائنس کے کئی قائدین اس یاترا میں شرکت کریں گے۔ یاترا کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ ملک کے معاشی ‘ سماجی اور سیاسی ڈھانچے کو مضبوط بنایا جائے اور ساری قوم کو مکمل انصاف عطا کیا جاسکے۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے اس یاترا کو منی پور کے دارالحکومت امپھال میں جھنڈی دکھائیں گے۔ راہول گاندھی یاترا کے دوران اس بات کی بھی کوشش کریں گے کہ ملک میں پھیلی ہوئی سماجی اور سیاسی نابرابری اور آمریت کو کیسے ختم کیا جاسکے۔ سیاسی ماہرین کا یہ احساس ہے کہ یہ یاترا بے انتہا کامیاب ہوگی کیونکہ ملک ایک نازک دور سے گزرر ہا ہے ، فرقہ پرستی کا ننگا ناچ کھیلا جارہا ہے، معاشی مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں، بیروزگاری سب سے بڑی چوٹی تک پہنچ گئی ہے۔ نوجوانوں میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور غربت و تنگدستی چاروں سمت محسوس کی جانے لگی ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت نہیں بدلی جاتی ہے تو صورتحال اور بھی سنگین ہوسکتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے سیاسی افق پر راہول گاندھی ایک نئی امید بن کر ابھر رہے ہیں۔ ایسے میں بھارتیہ جنتا پارٹی انڈیا بلاک کو تو ڑنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے لیکن وہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ سیاسی ماہرین الکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر بھی شک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ وہ یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ ان میں اُلٹ پھیر ممکن ہے اگر رائے دہی اور رائے شماری کے درمیان بڑا فاصلہ ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اس بات کا سخت نوٹ لیں اور رائے دہی کے فوری بعد رائے شماری کا انتظام کرے۔ ابھی ابھی ختم ہوئے ریاستی اسمبلی کے چناؤ میں بھی دھاندلی کی شکایت ہے۔ رائے دہی اور رائے شماری کے درمیان ایک مہینہ کا فاصلہ قیامت خیز ثابت ہوا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجانہ ہوگا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں نے بھی الکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو خیرآباد کہہ کر بیالیٹ پیپرس پر چناؤ کروا رہے ہیں۔ وہاں عوام نے الکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر اپنی بے چینی کا اظہار کیا تھا اور وہاں کی حکومتوں کو بیالیٹ پیپر کے ذریعہ رائے دہی کروانے پر مجبور کردیا تھا۔ اگر ہندوستان میں بھی اس طرح کے مطالبہ کو قبول کرلیا جائے اور بیالیٹ پیپر کے ذریعہ ووٹنگ کروائی جائے تو یقینا صحیح جماعتیں اور صحیح امیدوار جیت کر آئیں گے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو ہندوستان میں جمہوریت ایک مذاق بن کر رہ جائے گی۔ ماہرین نے اس بات پر بھی افسوس کااظہار کیا ہے کہ رائے دہی کا فیصد چناؤ کے دن ایک بتایا گیا اور اس کے ایک دن کے بعد فیصد میں تبدیلی ہوئی اور پھر اس کے بعد ایک اور تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایساکیوں ہورہا ہے؟ مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈرس خانگی بات چیت میں یہ کہتے ہیں کہ ’’بٹن کہیں بھی دباؤ جیتے گی تو بی جے پی ہی‘‘۔ اگر یہ سچائی ہے تو کتنی کڑوی سچائی ہے کہ لوگ بے شرمی کے ساتھ بدعنوانی کا اعتراف کررہے ہیں۔ یہ ساری باتیں راہو ل گاندھی کی نیائے یاترا میں پوچھی جائیں گی اور عوام کو بدعنوانیوں کے خلاف بیدار کیا جائے گا۔ امید کی جارہی ہے کہ مارچ کے مہینہ کے دوران لوک سبھا کے چناؤ سے متعلق اعلان کردیا جائے گا ۔ کانگریس پارٹی نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ 291 نشستوں پر مقابلہ کیا جائے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ انڈیا الائنس کے تمام پارٹنرس ایک دوسرے کے لئے قربانی دینے کے لئے تیار ہیں تاکہ بی جے پی کو شکست فاش سے دوچار کیا جاسکے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یقینا انڈیا جیتے گا اور راہول گاندھی جھوم کر کہیں گے کہ
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
قافلے آتے گئے کاروان بنتا گیا
۰۰۰٭٭٭۰۰۰