[]
حیدرآباد: جہاں بی آر ایس نے خودکو پارلیمنٹ میں تلنگانہ کی آواز ہونے کا دعویٰ کیا تھا وہیں پارلیمنٹ میں انکی کارکردگی کچھ اور بتا رہی ہے۔ 17 ویں لوک سبھا میں تلنگانہ کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ نے بی آر ایس سے زیادہ سوالات کیئے۔
پی آر ایس لیجسلیٹیو سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق، کانگریس کے تین اراکین پارلیمنٹ نے 741 سوالات پوچھے جن میں کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی نے مرکزی حکومت سے سب سے زیادہ 357 سوالات پوچھے ہیں۔ کانگریس کے اراکین کے پوچھے گئے سوالات کی اوسط 247 ہے جبکہ بی آر ایس ایم پیز نے اوسطاً 230 سوالات پوچھے۔
چیف منسٹر ریونت ریڈی نے بطور ایم پی اپنی میعاد کے دوران 65.5 فیصد حاضری کے ساتھ 197 سوالات پوچھے تھے۔ درحقیقت تلنگانہ کانگریس کے تینوں ارکان نے زیادہ سوالات پوچھے جو راہل گاندھی کے 99 سوالات سے بہت زیادہ ہے۔
حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی اکیلے 366 سوالات پوچھ چکے ہیں۔ تلنگانہ کے اراکین پارلیمنٹ میں سب سے بہترین حاضری 70 فیصد ان ہی کی رہی ہے۔ بی آر ایس کے ناگرکرنول کے رکن پارلیمنٹ پی رامولو سب سے کم تعداد میں صرف چھ سوالات پوچھے ہیں۔
ان کے بعد بی جے پی کے سویم باپو راؤ ہیں جنہوں نے صرف 29 سوالات پوچھے۔ بی آر ایس ممبران پارلیمنٹ نے 17ویں لوک سبھا میں کل 2,077 سوالات پوچھے جن میں سب سے زیادہ جی رنجیت ریڈی نے 373 سوالات پوچھے ہیں۔
بی آر ایس کے محبوب آباد کے ایم پی ملوت کویتا کی حاضری سب سے کم 46.7 فیصد رہی ان کے بعد بی آر ایس ایم پی کتہ پربھاکر ریڈی50.9 فیصد حاضری کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے ۔
بی جے پی کے تین ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے پوچھے گئے سوالات اوسطاً 59 ہے۔ بی آر ایس ممبران پارلیمنٹ کی اوسط حاضری 66.4 فیصدرہی ہے جو کہ کانگریس ممبران پارلیمنٹ سے کم ہے۔ 68.9 فیصد ہی بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کی اوسط حاضری 82 فیصد سے زیادہ رہی۔
تاہم بی آر ایس کے ارکان پارلیمنٹ نے کانگریس اور بی جے پی کے ارکان سے زیادہ مباحثوں میں شرکت کی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بی آر ایس کے کارگزار صدر کے ٹی راما راؤ نے کہا کہ اگر تلنگانہ کی آواز کو پارلیمنٹ میں سننے کی ضرورت ہے تو بی آر ایس کے ارکان پارلیمنٹ کو جتانا چاہئے اور اگر بی آر ایس نہیں ہے تو لوک سبھا میں تلنگانہ کی آواز بالکل بھی نہیں سنی جائے گی۔