حماس رہنما کے قتل کا جواب یقینی طور پر دیا جائے گا، سید حسن نصراللہ

[]

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے گزشتہ بدھ کو اپنے خطاب میں غزہ اور خطے میں جاری صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جمعے کو مختلف مسائل پر مزید جامع انداز میں گفتگو کا ارادہ رکھتے ہیں۔

حسن نصراللہ نے حزب اللہ کے رکن مرحوم حاجی محمد یاغی کی یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے صوبہ کرمان میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعے کے شہداء کے خاندانوں سے تعزیت کی۔

انہوں نے عراق میں حشد الشعبی کے اعلی کمانڈر ابو تقوی السعیدی کی شہادت پر بھی تعزیت پیش کی۔

نصر اللہ نے مزید کہا کہ ابو سلیم بعلبک کے علاقے میں انقلابی قوت سے سرشار کارکن کے طور پر ابھرے جس نے انمٹ نقوش چھوڑے۔

 ابو سلیم کے بارے میں میری گواہی محض ایک بیان نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے پائیدار تعلق کی ایک ٹھوس شہادت ہے جو 1978 میں ہمارے نوجوانوں سے شروع ہوا۔

حزب اللہ کے رہنما نے متنبہ کیا کہ “100 کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر محیط علاقے اور 90 دنوں سے زائد عرصے تک پھیلی ہوئی جنگ پر ہماری جوابی کاروائی نہ صرف مقبوضہ سرحدی مقامات تک محدود ہے بلکہ ناجائز صیہونی بستیوں کو بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ دشمن کو منظم طریقے سےتکنیکی اور انٹیلی جنس آلات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ہے اور دشمن کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لاکھوں ڈالر میں ہے جب کہ جانی نقصان الگ سے۔

انہوں نے کہا: تکنیکی نقصانات کے جواب میں اسرائیلی دشمن نے ڈرون اور جاسوس طیاروں کی تعیناتی کے ذریعے تلافی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بری طرح ناکام رہا۔ خود اسرائیلی ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل ہلاکتوں کی تعداد قابض فوج کے سرکاری طور پر جاری کردہ اعداد و شمار سے تین گنا زیادہ ہے۔

جب کہ صیہونی آباد کاروں کی وسیع پیمانے پر نقل مکانی سے اس رجیم پر سیاسی اور سکیورٹی دباؤ الگ سے پڑ رہا ہے۔

حسن نصرا اللہ نے کہا کہ لبنان، شام، عراق اور یمن میں مقاومتی محاذ کا مقصد اسرائیلی رجیم پر دباؤ ڈالنا اور غزہ کے خلاف جارحیت کو روکنے پر مجبور کرنے کے لیے اسٹریٹجک چیلینج کھڑا کرنا ہے”۔

انہوں نے کہا کہ صیہونی رجیم نے 1948 کے بعد سے جنوبی لبنان پر مسلسل حملے کئے اور مقامی آبادی اور لبنانی فوج دونوں کو نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں جنوبی لبنان کے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ تاہم آج غاصب صیہونی آبادکار بھاگنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے اس سے قبل بیروت میں حماس کے نائب رہنما کے قتل کے بارے میں مزید کہا کہ شیخ صالح العاروری کے قتل کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔ فیصلہ مقاومت کے ہاتھ میں ہے اور بلاشبہ اس پر عمل کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی سنگین خلاف ورزی اور جارحیت پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے، کیونکہ اس سے لبنان کو خطرہ لاحق ہے۔

عراقی مزاحمت کی فوجی کارروائیوں کے بارے میں حسن نصر اللہ نے کہا کہ بنیادی مقصد غزہ کی حمایت ہے اور امریکی انتظامیہ اس بارے میں خوفزدہ ہے جب کہ یوکرین میں سخت مشکل سے دوچار ہے۔

حزب اللہ کے رہنما نے مزید کہا کہ عراق میں اسلامی مزاحمت کا غزہ کی حمایت میں محاذ کھولنے کا ایک فائدہ مند نتیجہ عراق کے لیے خود کو امریکی قبضے سے آزاد کرنے کا حقیقی امکان ہے۔

آج عراقی حکومت اور عوام کے لیے ایک تاریخی موقع ہے کہ وہ قابض امریکیوں سے جان چھڑائیں

حسن نصراللہ کا مزید کہنا تھا کہ عراق کو داعش سے نمٹنے کے لیے امریکی افواج کی ضرورت نہیں ہے۔ فی الحال ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ شام میں داعش سے وابستہ بعض عناصر نے امریکی افواج سے پناہ یا مدد حاصل کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ “جو لوگ آج مزاحمتی محور کے اقدامات کو کم سمجھتے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جو غزہ پر جارحیت کے آغاز کے بعد ابھی تک کچھ نہیں کررہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک اہم قومی کامیابی یہ ہے کہ صنعا کی حکومت ایک داخلی دھڑے سے بین الاقوامی مساوات کا ایک اہم جزو بننے کے لیے تیار ہوئی ہے اور اسے کمزور کرنے کی کوششوں کے باوجود دشمنوں کا حساب چکا رہی ہے۔ 

حزب اللہ کے رہنما نے کہا کہ آج یمن سے امریکہ کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ چیلنج صرف انصار اللہ ہی نہیں بلکہ لاکھوں یمنی عوام ہیں جو قابض اور جارح قوتوں کو ناکام بنانے اور شکست دینے کی پوری تاریخ رکھتے ہیں۔

انہوں نے مزاحمتی شہداء کے اہل خانہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر سیکورٹی کے تقاضے نہ ہوتے تو میری دلی خواہش اور تمنا یہ ہے کہ میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑا رہوں، آپ کے ہاتھ اور پیشانی کو بوسہ دے کر اظہار تشکر کروں۔

انہوں نے جنوبی لبنان کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر دشمن غزہ میں مزاحمت کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتا تو ضرور اس کا اگلا ہدف جنوبی لبنان خاص طور پر جنوبی لطانی ہوتا۔ لیکن آپ کی تابڑ توڑ مقاومت نے اس کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔

حسن نصر اللہ نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے جوان دشمن کی جارحیت کے خلاف علاقے میں ہمت کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور دشمن کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور دحیہ میں غاصب صیہونی رجیم کی خلاف ورزی کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *