[]
کسی (NGO) کی آڑ میں شہر میں ایک دہشت گرپا کردینے والی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔ یہ مصیبت عموماً غریب بستیوں میں ہورہی ہے جہاں نہ مناسب تعلیم ہے اور نہ ہی ذرائع روزگار ۔
اس دہشت گردی کا شکار غریب خواتین اور ان کے لواحقین ہورہے ہیں اور انہیں آفس طلب کیا جارہا ہے۔ NGO کے سربراہ کے ہاتھوں میں ایک کاغذات کا پلندہ ہوتا ہے جو ان لوگوں کے تئیں وہ شکایات ہیں جو مظلوم خواتین نے ان کے شوہروں اور سسرالی عزیزوں کے خلاف ان کے روبرو پیش کی ہیں۔
عموماً شکایت میں زائد جہیز کے مطالبات ‘ مار پیٹ اور دیگر مظالم ہوتے ہیں جو یا تو سراسرغلط ہوتے ہیں یا ان میں مبالغہ آمیزی ہوتی ہے۔ جن خواتین کو طلب کیا جاتا ہے یا ساتھ لے جایا جاتا ہے ان کا تعلق معاشرہ کے نچلے طبقات سے ہوتا ہے جن کے ذرائع آمدنی بہت محدود ہوتے ہیں۔
ان میں اکثر ایسی خواتین ہوتی ہیں جوگھروں میں کام کرتی ہیں۔ ان کے گھر والے ٹھیلہ بنڈیوں والے‘ مزدور پیشہ ہوتے ہیں جن کی روزانہ کی آمدنی ان کے روزانہ اخرجات سے بھی کم ہوتی ہے۔ ایسی خواتین سے معاملہ کی یکسوئی اور مصالحت کروانے کے عنوان پر ہزاروں روپیہ وصول کئے جارہے ہیں۔
معاشرہ کے غریب طبقات کے پاس نہ تو تعلیم ہی ہے اور نہ کوئی منفعت بخش کاروبار۔ کسی بھی جھوٹی اور بے بنیاد شکایت کی بناء پر ان غریب طبقات کا استحصال کسی جرم سے کم نہیں۔ ایسی غیر قانونی تنظیموں کے خلاف فی الفور شکایت درج کروانے کی ضرورت ہے ورنہ ان نام نہاد سوشیل ورکرس کے حوصلے اور بلند ہوجائیں گے۔
ایسے لوگ جو کسی تنظیم سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اگر آپ کے گھر آئیں تو ان سے بچئے کہ آپ ان کے دفتر جانے کے پابند نہیں اور یہ بھی کہیئے کہ ان کو آپ کو دفتر طلب کرنے کا کوئی قانونی حق نہیں۔ یہ حق تو صرف پولیس کو حاصل ہے کہ وہ بربنائے شکایت آپ کو زیر دفعہ41-A ضابطۂ فوجداری نوٹس جاری کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن طلب کرے اور شکایت کنندہ خاتون کی موجودگی میں آپ سے سوالات کرے۔
لیکن پولیس کے ان اختیارات کو ان تنظیموںنے چھین لیا ہے اور وہ خود پولیس کا رول ادا کررہی ہیں۔ ایک ایسا حقیقی واقعہ حالیہ دنوں میں ہمارے روبرو لایا گیا جس میں ایک غریب خاتون جو چار گھروں میں ماہانہ دو ہزار روپیہ تنخواہ پر کام کرتی ہے ‘ اس سے پندرہ ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ نہ توکوئی قاضی صاحب تمہارے مسئلہ کو حل کرسکتے ہیں اور نہ ہی پولیس ۔ یہ سب ہمارے کنٹرول میں ہیں۔
ہم خلع کی کارروائی مکمل کردیں گے لیکن تمہیں یہ رقم ادا کرنی ہوگی۔ بے چاری کا بیٹا ایک دوکان میں کام کرتا ہے اور دس ہزار روپیہ تنخواہ پاتا ہے۔ صرف ایک کمرہ میں زندگی ہے۔ یہ بے چاری اتنی بھاری رقم کہاں سے فراہم کرے گی جو اس کی دو ماہ کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہے۔
اس خاتون کی شکایت پر جب(NGO) کی سربراہ خاتون سے بات کی گئی تواس نے سراسرانکار کردیا اور کہا کہ ہم سوشیل ورک کرتی ہیں اور اس کام کو بغیر کسی معاوضہ کے انجام دیتی ہیں۔ آپ کو غلط اطلاع فراہم کی گئی۔ ہم نے کسی رقم کا مطالبہ نہیں کیا۔ یہ سراسر ہم پر الزام ہے۔
مسلم سماج کے بااثر حضرات سے اپیل ہے کہ اگرایسا کوئی واقعہ ان کے علم میں آئے تو غیر تعلیم یافتہ مسلم خواتین کو اس قانونی موقف سے آگاہ کریں اور تلقین کریں کہ ایسی تنظیموں کو ایک روپیہ بھی دینے کی ضرورت نہیں۔
سوشیل سروس کی آڑ میں بلیک میل کا یہ دھندہ قابلِ مذمت ہے۔ ان لوگوں کے ہاتھ بڑھتے جارہے ہیں جن پر روک وقت کا شدید تقاضہ ہے۔ اپنی کم علمی اور قانون سے ناواقفیت کی وجہ سے بہت غریب طبقات کے لوگ بے جا ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں اور ان تنظیموں کی حوصلہ شکنی وقت کا شدید تقاضہ ہے۔