[]
ہندوستان میں مذہب کے نام پر سیاست کرنا بہت آسان ہے کیونکہ اس کے نشے میں غرق عوام پھر کسی اور جانب نہیں دیکھتی اور ہر تکلیف برداشت کر لیتی ہے۔
کچھ ہی دن رہ گئے ہیں عام انتخابات کے اور تمام سیاسی پارٹیاں اپنی طرف سے ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہیں اقتدار میں آنے کے لیے۔ وہ ایسا کیوں نہ کریں، کیونکہ تمام پارٹیاں سیاست اسی دن کے لیے کرتی ہیں کہ وہ ایک دن اقتدار میں آئیں اور عوام کی فلاح کے لیے کام کریں۔ آج بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اقتدار میں آنے کا مقصد یہی ہے یا پھر بدل گیا ہے۔ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ سیاست دانوں کا اقتدار میں آنے کا مقصد خوب پیسہ بنانا، لوگوں کے ہجوم کو اپنے ارد گرد جمع کرنا، کارپوریٹ گھرانوں کو خوش رکھنا اور زیادہ تر تقریبات میں مہمان خصوصی بننا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود سیاستداں کی ترجیحات میں نہیں رہا، بلکہ ان کی اپنی ترقی ان کی ترجیح بن کر رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ سیاستدانوں نے سیاست کو پیشہ بنا لیا ہے اور جس کا جو پیشہ ہوتا ہے وہ اس پیشے میں اپنے فائدے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ اب اس پیشہ میں سماج کے وہ لوگ کامیابی کی سیڑھی چڑھ رہے ہیں جو ہر پیشہ کے لیے نااہل ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ بات بہت اچھی ہے کہ اس پیشہ کے لیے نہ تو کوئی کیریکٹر سرٹیفیکیٹ چاہیے ہوتا ہے، نہ کسی قسم کی تعلیمی لیاقت چاہئے ہوتی ہے۔ بس اس کو لوگوں کو اپنا مرید بنانا آنا چاہیے، چاہے انہیں مجبور کر کے یا انہیں بے وقوف بنا کر۔
سیاست میں ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ پہلے اس میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی تھی جو سماج کی خدمت کو ترجیح دیتے تھے اور ضرورت بھر پیسہ ان کی آخری ترجیح ہوتی تھی۔ اب جو سیاست کا چلن ہے اس میں لوگوں کے ہجوم کو اپنا مرید بنانا اہم ہے اور اس میں مذہب اپنا بہت خاص کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان بنیادی طور پر مذہبی ملک ہے اور عوام غریب ہونے کی وجہ سے مسجد اور مندر کو اپنی ضرورتوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ عوام مذہب کی خاطر ہر پریشانی برداشت کر لیتے ہیں۔
اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی ہوں یا بی جے پی کے سینئر رہنما، سب کے سب عوام کو مذہب کے نشے میں دھت رکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ عوام کے لیے وہ کچھ کریں یا نہ کریں لیکن مذہب کے نام پر وہ عوام کی بھیڑ ضرور جمع کر سکتے ہیں، اور وہ بھی ایسی بھیڑ جو ان کے لیے اور مذہب کے لیے جان دینا بھی چھوٹی قربانی سمجھتے ہیں۔ اس میں عوام کو تو نقصان ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی بنیادی ضرورتوں سے محروم رہ جاتے ہیں، لیکن اس طرح کی سیاست کرنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔
ہندوستان میں مذہب کے نام پر سیاست کرنا بہت آسان ہے کیونکہ اس کے نشے میں غرق عوام پھر کسی اور جانب نہیں دیکھتی اور ہر تکلیف برداشت کر لیتی ہے۔ موجودہ حکمراں جماعت نے اس ہتھکنڈے کو بخوبی استعمال کیا ہوا ہے اور اس کے لیے چاہے اسے کسی حد تک بھی جانا پڑے وہ جاتی ہے، اور جا رہی ہے۔ اس کے سامنے جو اس کے سیاسی مخالف ہیں ان کے بارے میں بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بہت بونے (پستہ قد) ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ مسجد مندر جانے سے پہلے یا وہاں جانے کے لیے بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور پیسہ روزگار کے ذریعہ ہی عوام کے پاس آتا ہے۔ مذہب کا رنگ بہت گہرا ہوتا ہے لیکن روزگار، مہنگائی اور پیسوں کے سامنے پھیکا پڑ جاتا ہے۔
آج ترقی وہی ملک کر رہے ہیں جنہوں نے مذہب کو انسان کی ذاتی چیز قرار دے کر اس کو سیاست میں آنے کا ذریعہ نہیں بنایا، اور جن ممالک نے مذہب کو عوامی مدوں پر ترجیح دی ہے وہ نہ صرف ان ترقی یافتہ ممالک کو آج بھی اپنا آقا تسلیم کرنے پر مجبور ہیں بلکہ پیچھے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ عوام کی ترقی اور خوشحالی میں ہی ملک کی ترقی ہے، نہ کہ کسی مذہب کی ترقی میں۔ جتنی جلد ہم اس حقیقت سے خود کو روشناس کرا لیں گے اتنی ہی جلدی ہمارا ملک ترقی کی جانب تیزی سے گامزن ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;