[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: 2000ء کے بعد مغربی ایشیائی خطے میں اسلامی مزاحمت صیہونی دشمن کے ساتھ مختلف جنگوں سے گزری، اس سلسلے میں شہید سلیمانی کا کردار خاص طور پر فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس اور جہاد اسلامی کی حمایت قابل ذکر ہے۔
چونکہ مزاحمت کا اصل ہدف غاصب صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنا ہے، اس لئے شہید سلیمانی کا کردار سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔
2000ء میں جنوبی لبنان کی آزادی
شہید سلیمانی کا کردار 2000ء میں جنوبی لبنان کی آزادی میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ کیونکہ لبنانی مقاومت کو صیہونی رجیم کے خلاف مزاحمت کی فرنٹ لائن سمجھا جاتا ہے۔ شہید سلیمانی کا یہ معاون کردار اگلے برسوں کے اندر دوسرے محاذوں میں صیہونی دشمن کے خلاف مزاحمت کی فتوحات کی اہم پیشرفت کے طور پر بڑھتا چلا گیا۔
اس سلسلے میں حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ سید ہاشم صفی الدین کا خیال ہے کہ “2000ء میں، شہید سلیمانی کی موجودگی بہت نمایاں تھی جس سے نئی حکمت عملیوں کی تشکیل ہوئی۔
وہ ایک ایسا کمانڈر تھا جس نے جنوبی لبنان کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا، لیکن وہ کبھی بھی میدان کو اپنے کنٹرول نہیں رکھنا چاہتے تھے۔
سنہ 2000ء سے پہلے مزاحمت نے خود کو نئے انفراسٹرکچر سے آراستہ کرنا شروع کر دیا اور فوجی آپریشنز کی صلاحیتوں کے میدان میں اضافہ ہوا۔
اگرچہ 2000ء سے پہلے موجود عسکری قوت کوئی چھوٹی قوت نہیں تھی۔ لیکن ہتھیاروں کی نوعیت، مقدار، منتقلی کے طریقے اور حکمت عملی کے میدان میں بڑی پیشرفت سامنے آئی۔
33 روزہ جنگ
2006ء کے موسم خزاں میں 33 روزہ جنگ قابض صیہونی رجیم اور عربوں کے درمیان چھٹی جنگ تھی اور غاصب رجیم کی سابقہ جنگوں کے مقابلے میں یہ اپنی نوعیت کی طویل، مختلف جہتوں سے غیر معمولی اور منفرد اہمیت کی حامل ہے۔ کیونکہ اس بھاری اور جامع جنگ میں غاصب رجیم نے وہ اہداف حاصل نہیں کیے جو اس نے جنگ سے پہلے امریکہ کی تعاون سے اپنے لیے طے کیے تھے۔ لہٰذا ایک لحاظ سے یہ جنگ جنوبی لبنان سے انخلاء (2000) کی شکست و ناکامی سے کہیں زیادہ سخت تھی ۔ البتہ قابض رجیم کی وسیع یلغار اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی فتح کے ساتھ ختم ہوئی اور اس کامیابی کے نتیجے میں لبنان، صیہونی حکومت اور مغربی ایشیائی خطے کے اندرونی مساوات میں نئی اور بنیادی تبدیلیاں آئیں۔
تاہم اس جنگ میں اہم نکتہ شہید سلیمانی کی حزب اللہ کی حمایت ہے کہ 2000ء اور 2006ء کے درمیان ایران اور حزب اللہ کے درمیان مختلف شعبوں میں قریبی تعاون قائم ہوا۔
لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے مطابق، شہید سلیمانی حزب اللہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کے درمیان اہم رابطہ تھا۔
اس جنگ میں حزب اللہ کے لئے شہید سلیمانی کی حمایت کی سب سے اہم ترجیحات یہ تھیں:
طویل مدتی منصوبہ بندی، تربیتی کورسز کا انعقاد اور بیرکوں کا قیام، میزائل پاور میں اضافہ، کارنیٹ میزائلوں کو درآمد کرنا اور انہیں استعمال کرنے کا طریقہ سکھانا، حزب اللہ کے مواصلاتی نیٹ ورک کو وسعت دینا۔ تاہم اس لاجسٹک سپورٹ سے زیادہ اہم اس جنگ میں شہید سلیمانی کی فعال موجودگی تھی کہ وہ میدان کے اندر اور لبنان سے اس جنگ کی پیروی کر رہے تھے۔
2008 کی 22 روزہ جنگ
27 دسمبر 2008 کو حماس نے اقتصادی ناکہ بندی کی وجہ سے قابض صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ بندی میں توسیع کرنے سے انکار کر دیا۔ قابض رجیم نے پگھلے ہوئے سیسہ کے نام سے غزہ میں اپنی فضائی اور زمینی کارروائیاں جاری رکھیں۔ اس جنگ میں رجیم کے بنیادی اہداف، غزہ کی راکٹ پاور کو توڑنا، حماس کو کمزور کرنے کے ساتھ آخر کار اسے غیر مسلح کرکے جنوب میں کسی بھی سیکورٹی خطرے کو ختم کرنا شامل تھا۔
یہ جنگ جسے فلسطین اور صیہونی حکومت کے درمیان تصادم اور مفاہمت کا آغاز کہا جا سکتا ہے وہیں فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو مسلح کرنے میں جنرل سلیمانی کے عملی کردار کا نقطہ آغاز بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
حماس اور اسلامی جہاد کو ہتھیاروں سے لیس کرنے میں شہید سلیمانی کے کردار کا اظہار ان کی شہادت کے بعد ان گروہوں کے سربراہوں نے کیا تھا۔
اس بارے میں اسلامی جہاد کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے غزہ کی پٹی میں میزائل اور ہتھیار بھیجنے کو سردار سلیمانی کا اسٹریٹجک قدم قرار دیتے ہوئے کہا: شہید سلیمانی نے ذاتی طور پر اس سمت میں کوششیں کیں اور بہت سے ممالک کا سفر کیا اور ان ہتھیاروں کی فراہمی کے منصوبے اور انتظامات کئے۔
اسامہ حمدان نے ان ہتھیاروں کی ترسیل کے بارے میں کہا کہ میزائلوں کا کچھ حصہ شام سے فلسطین منتقل کیا گیا تھا۔ شہید سلیمانی نے غزہ کی پٹی پر کارنیٹ میزائل بھیجنے کا فیصلہ کیا اور ایسا ہی ہوا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہید سلیمانی میزائلوں کی صلاحیتوں میں تبدیلیاں لانے کے لئے غزہ میں کئی میزائل فیکٹریاں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
لبنان میں حماس کے نمائندے احمد عبدالہادی نے غزہ میں سرنگوں کی تعمیر میں شہید سلیمانی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: “غزہ میں زیر زمین سرنگ کی تعمیر کا خیال دو شہیدوں نے پیش کیا تھا، ایک کا نام عماد مغنیہ ہے اور دوسرا جنرل قاسم سلیمانی۔
201ء کی آٹھ روزہ جنگ
22 روزہ جنگ کے خاتمے کے باوجود غزہ اور مقبوضہ علاقوں کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں جاری ہیں۔ یہاں تک کہ القسام بٹالین کے نائب کمانڈر احمد الجباری کی شہادت کے ساتھ ہی فریقین کے درمیان ایک بار پھر جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں قابض حکومت کے اہداف غزہ کی سرحد پر اپنے ہی فوجیوں کے خلاف حملوں کو روکنا، مزاحمتی گروپوں کی طاقت میں خلل ڈالنا اور حماس اور اسلامی جہاد کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کو تباہ کرنا تھا۔ اس جنگ میں اسلامی جہاد تحریک نے اس بات کی تصدیق کی کہ حماس نے حکومت کے خلاف جو ہتھیار استعمال کیے وہ ایران نے بنائے تھے۔
اسلامی کونسل کے سربراہ نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ فلسطین کے لیے ایران کی امداد مادی اور روحانی پہلو کے علاوہ فوجی پہلو بھی رکھتی ہے۔ اس جنگ میں حماس نے فجر 5 میزائلوں کی نقاب کشائی کی اور ان میں سے کچھ مقبوضہ علاقوں کی طرف داغے۔
اس حوالے سے حماس کے ذرائع ابلاغ کے عہدیداروں میں سے محمد البریم نے کہا: “2012 کی فیصلہ کن جنگ کے دوران غزہ سے فجر 3 اور 5 میزائل کے ذریعے پہلی بار تل ابیب کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ کامیابی شہید سلیمانی کی کمان کی وجہ سے تھی، جنہوں نے غزہ کی پٹی میں اس فوجی ڈھانچے کی نگرانی کی اور ساتھ ہی مزاحمتی فورسز کو ہتھیار بھیجے۔
2014ء کی 51 روزہ جنگ
جولائی 2014 میں شروع ہونے والی اس جنگ میں صیہونی حکومت نے غزہ کے اندر سے میزائل سسٹم کو بے اثر کرنے، شام کی جنگ کے ساتھ ہی اس علاقے کو کنٹرول کرنے اور ایران کی طاقت کے پھیلاؤ کو روکنے جیسے اہداف کے تحت جارحیت کی۔ اس جنگ میں، شام کے بحران میں ایران اور حماس کے درمیان سیاسی تضادات کے باوجود، ایران کی وزارت دفاع اور خارجہ امور نے مزاحمتی گروپوں حماس اور اسلامی جہاد کی مضبوط اور سرکاری حمایت کا اعلان کیا۔
اس جنگ کے دوران، شہید سلیمانی نے فلسطینی گروہوں کے رہنماؤں کو ایک پیغام بھیجا، جس میں انہیں مزاحمت کی ترغیب دی۔ اپنے پیغام کے آغاز میں انہوں نے کہا کہ سلام ہے مزاحمت کے ان کمانڈروں کو جنہوں نے فلسطین کی تاریخ میں اپنے نام اعزازی حروف کے ساتھ درج کئے ہیں۔ وہ کمانڈر جو سمجھوتہ کو قبول نہیں کرتے اور ہتھیار ڈالنے کے دباؤ اور ہتھیار ڈالنے کی سازشوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بم کر کھڑے رہتے ہیں۔ قسام بٹالین، قدس بریگیڈ، ابو علی مصطفی، شہدائے اقصیٰ اور ناصر صلاح الدین بریگیڈ کے کمانڈروں اور مزاحمت کاروں اور روئے زمین پر موجود تمام مجاہدین اور مزاحمتی تحریکوں کو سلام۔
اس پیغام میں انہوں نے اختلاف اور تقسیم سے بچنے کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم تمام بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی بندوقیں، ہتھیار، خون اور عزت انسانیت اور اسلام کے دفاع میں استعمال کریں، جس کا خلاصہ فلسطین میں مزاحمت ہے۔
ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم مزاحمت کی فتح کے لیے اصرار کرتے رہیں گے اور اسے فتح تک پہنچاتے رہیں گے اور کرائے کے فوجیوں کو بتا دیں کہ ہم مزاحمت کا دفاع اور اس کی حمایت سے باز نہیں آئیں گے۔
اس وقت حماس کے ایک رہنما یحییٰ السنوار نے بھی بتایا کہ قاسم سلیمانی نے انہیں غزہ کی پٹی میں ایک ٹیلفونک رابطے میں بتایا کہ ” بیت المقدس کے دفاع کے لیے ہماری تمام سہولیات اور جنگ کی صلاحیت آپ کے اختیار میں ہے۔
اس جنگ میں خاص طور پر فلسطینی حماس کی ڈرون ٹیکنالوجی پاور میں نمایاں اضافہ ہوا اور پہلی بار ابابیل ڈرون نے مقبوضہ علاقوں کی فضائی حدود میں داخل ہو کر اہداف کو نشانہ بنایا۔
2021ء کی 12 روزہ جنگ
یہ جنگ جنرل سلیمانی کی شہادت کے 16 ماہ بعد مئی 2021 میں شروع ہوئی۔ پہلے، مشرقی بیت المقدس میں شیخ جراح محلے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے پر فلسطینیوں اور صیہونی افواج کے درمیان تنازعہ ہوا اور پھر یہ ایک مکمل جنگ میں بدل گیا اور 21 مئی تک جاری رہا۔
اس جنگ میں کارنیٹ میزائلوں کی کارکردگی نے مزاحمت کو ایک بار پھر شہید سلیمانی کا کا گرویدہ بنا دیا۔ ان ہتھیاروں کی تباہ کن طاقت نے حماس کی جنگی طاقت میں اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر صنعتی تنصیبات اور حکومت کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے میں موئثر رہی۔
صیہونی فوج کے ایک کمانڈر نے ان میزائلوں سے ہونے والے غیر معمولی نقصان اور اس حملے میں حکومت کی کابینہ کے غلط فیصلے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ کارنیٹ میزائل حکومتی کابینہ سے برتر ہے۔
مزاحمت کو فلسطین کی اہم حکمت عملی میں تبدیل کرنا
شہید سلیمانی کی حمایت نے مزاحمتی فورسز اور صیہونی حکومت کے درمیان نفسیاتی اور ہتھیاروں کے حوالے سے گزشتہ دو دہائیوں میں طاقت کا توازن پیدا کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔
الاقصیٰ طوفان آپریشن تک ان حمایتوں کا نتیجہ فوجی، سیاسی اور اقتصادی خطرات کے تمام پہلوؤں میں صیہونی حکومت کے سیکورٹی عنصر کی کمزوری میں اضافہ تھا۔ فوجی حکمت عملیوں کی ناکامی نے غاصب حکومت کی سلامتی کے سب سے اہم اصول یعنی ڈیٹرنس کو ہلا کر رکھ دیا۔ نیز، تل ابیب کے حریفوں کی پوزیشن مضبوط ہونے اور علاقائی سطح پر مزاحمت کی طرف سے فوجی طاقت کے استعمال کے امکانات میں اضافہ ہوا۔
شہید کی ان حمایتوں نے طوفان الاقصیٰ میں سب سے زیادہ رنگ دکھایا۔ اگرچہ غاصب صیہونی حکومت کا خیال تھا کہ شہید سلیمانی کے بعد فلسطینی کاز ختم ہو گیا ہے اور مزاحمت کمزور ہو گئی ہے، لیکن آپریشن سٹارم نے ثابت کیا کہ ان حمایتوں کا اثر بالخصوص نفسیاتی میدان میں تل ابیب رجیم کی ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کو ختم کرنے میں باقی ہے اور مزاحمت اب فلسطینیوں کی اہم حکمت عملی بن چکی ہے۔
سجاد مرادی کلاردہ; بین الاقوامی تعلقات کے ماہر