علامہ قاضی نیاز نقوی، پرہیزگاری اور حسنِ اَخلاق کے زیور سے آراستہ ایک خوش مزاج عالم باعمل تھے

[]

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سابق سینئر نائب صدر اور بزرگ عالم دین علامہ قاضی سید نیاز حسین نقویؒ کے درجات کی بلندی اور ان کی علمی خدمات اور کارناموں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے ایک تعزیتی ریفرنس قم المقدسہ میں منعقد ہوا، جس سے برصغیر کے مایہ ناز عالم دین اور خطیب آیت اللہ سید عقیل الغروی نے خطاب کیا۔

اس تعزیتی ریفرنس میں ایرانی، پاکستانی اور ہندوستانی علماء و طلاب کرام سمیت اہم دینی شخصیات اور حوزه ہائے علمیه کے سربراہاں نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور مرحوم و مغفور کی علمی اور سماجی خدمات کو زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔

آیت اللہ سید عقیل الغروی نے مجلس ترحیم سے خطاب کرتے ہوئے علامہ قاضی نیاز حسین نقویؒ کی عالم اسلام کیلئے گراں قدر خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ علامہ قاضی سید نیاز حسین نقوی تقویٰ، پرہیزگاری اور حسنِ اَخلاق کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوش مزاج عالم باعمل تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ علماء جنہوں نے طول تاریخ میں دین اسلام کی راہ میں خدمات انجام دیں اور قوم و ملت کے امور میں مؤثر کردار ادا کیا ہے، یہ وہی علماء ہیں، جنہیں توفیق، من جانب اللہ نصیب ہوئی ہے۔

انہوں نے وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سربراہ آیت اللہ سید حافظ ریاض حسین نجفی کی علمی خدمات اور کارناموں کو سراہا اور کہا کہ میری آیت اللہ سید حافظ ریاض حسین نجفی سے بھی ملاقات رہی ہے۔ آپ بھی علمی میدان میں ایک عظیم علمی شخصیت ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ علم کے مقابلے میں جہل کوئی شئی ہی نہیں ہے، دونوں کے برابر ہونے کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا، جس طرح سے نور اور ظلمت بھی دو مقابل چیزیں نہیں ہیں، یا نور ہے یا ظلمت۔

علامہ سید عقیل الغروی نے جہل کے معانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ عربی زبان میں جہل کے تین معانی بیان ہوئے ہیں: عقل کے مقابلے میں، علم کے مقابل میں، ان دونوں صورتوں میں کبھی بھی قابلِ فخر نہیں ہے۔

اتنا معلوم ہے کہ جو لوگ علم نہیں رکھتے وہ بھی علم رکھتے ہیں کہ علم افضل ہے۔ علم و عالم کی قدر فطرت انسانی کا خاصہ ہے، ہمیں اپنے بچوں کو یہ سمجھانا چاہئیے کہ دیکھو! علم و عالم کی قدر دانی انسانیت کا تقاضا ہے اور علم و عالم الدین کی قدردانی، شیعہ اہل بیت علیہم السّلام ہونے کی پہلی نشانی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم امیر المؤمنین ؑ کو امام کیوں تسلیم کرتے ہیں؟ کیوں ان سے عشق کرتے ہیں؟ وصایت امیر المومنین ؑ، ولایت امیر المومنین ؑ پر سینکڑوں دلیلیں ہیں، مگر ان تمام دلائل پر سب سے پہلی، سب سے عظیم، سب سے محکم، سب سے نمایاں اور سب سے روشن دلیل یہ ہے کہ وہ بعد از خدا و رسول اعلم امت تھے، اب ایک عالم کو چھوڑ کے جاہل کو کیسے خلیفہ بنائیں؟

سید عقیل الغروی نے جہل کے تیسرے معنی بیان کرتے ہوئے کہا کہ جہل، حلم کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے، کسی نے ظلم کیا تو وہ زیادتی ہے اور جو مظلوم ہے وہ صبر سے کام لیتا ہے، حلم سے کام لیتا ہے۔ جو حلم سے کام نہ لے اسے عربی زبان میں جہل کہا جاتا ہے، انسان زندگی میں اگر بہت زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے تو صرف اور صرف علم کے سہارے طاقتور ہوتا ہے۔

انہوں نے علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ جہاں علم ہے، وہاں شجاعت ہے، جہاں علم نہیں وہاں شجاعت بھی نہیں ہوگی۔ عالم کبھی بزدل ہو ہی نہیں سکتا۔ شجاعت انسان کے نقطۂ اعتدال کا نام ہے، بے جا قوت کے استعمال کو شجاعت نہیں کہتے، بلکہ مناسب موقع و محل پر شجاعت کے استعمال کرنے کو شجاعت کہتے ہیں، اسی طرح بے محل کلام شجاعت نہیں ہے۔ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کا نام شجاعت نہیں ہے، بلکہ مقابلے میں آنے والا دشمن، اگر پناہ مانگے تو اسے پناہ دینے کا نام، شجاعت ہے۔ دوسروں کو قتل کرنے کا نام شجاعت نہیں، بلکہ مظلوموں کی مدد کا نام شجاعت ہے، اسی لئے علی ابن ابی طالب ؑ کے علاؤہ اس کرہ ارض پر کوئی نہیں ہے جسے کامل طور پر شجاع کہا جا سکے۔ علی علیہ السّلام کی شجاعت ایک معجزہ الٰہی تھی، اسی طرح جو عالم ہوتا ہے وہی شجاع ہوتا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *