[]
مہر خبررساں ایجنسی،بین الاقوامی ڈیسک؛ اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونی گوتریش نے غزہ میں جاری صہیونی جارحیت اور فلسطینی تنظیموں کے ساتھ جنگ کو بین الاقوامی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے سلامتی کونسل کے صدر کو ایک خط میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ان کے اس اقدام کی کیا وجوہات ہیں؟
غزہ کے خلاف صہیونی جارحیت تیسرے مہینے میں داخل ہوگئی ہے۔ فلسطینی بے گناہ عوام کے قتل عام اور نسل کشی کے باوجود اقوام متحدہ نے اس مسئلے پر چپ کا روزہ رکھا ہے بلکہ تین مستقل اراکین امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس قتل عام پر صہیونی حکومت کا کھل کر ساتھ دیا ہے۔
سکریٹری جنرل نے کئی مواقع پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے لیکن ان کے مطالبے کا کوئی اثر نہیں ہوا اور فلسطینی عوام اب بھی صہیونی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے تازہ اقدام میں ادارے کے آرٹیکل 99 کا سہارا لیا ہے جس میں ان کو یہ حق دیا گیا ہے کہ بین الاقوامی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے کسی بھی مسئلے کی طرف سلامتی کونسل کی توجہ مبذول کراسکتے ہیں۔ ان کی نظر میں غزہ میں صہیونی جارحیت سے عالمی امن خطرے میں پڑسکتا ہے جس کو اقوام متحدہ اب تک روکنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔
آرٹیکل 99 کو استعمال کرنے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی نو مواقع پر اس آرٹیکل کو استعمال کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی جس میں 1960 میں کانگو میں خانہ جنگی، 1980 میں ایران اور عراق کے درمیان جنگ اور 1989 میں لبنان کا داخلی بحران شامل ہیں۔
اس کے بعد سے اب تک اس آرٹیکل کو استعمال کرنے کا کوئی موقع نہیں آیا ہے اگرچہ کئی بحرانوں نے عالمی امن کے لئے خطرات ایجاد کئے۔ گوتریس 1917 میں ادارے کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اس دوران یمن میں بیرونی جارحیت کی وجہ سے بحرانی حالات پیدا ہوگئے تاہم اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور نہ اس آرٹیکل کو استعمال کرنا ضروری سمجھایا گیا۔
اقوام متحدہ کے سربراہ کی جانب سے اس اقدام کی دو وجوہات ہیں:
غزہ کی ناگفتہ بہ صورتحال اور عوام کو درپیش شدید مشکلات
انٹونی گوتریش نے ایرانی وزیرخارجہ عبداللہیان سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ میں انسانی المیہ درپیش ہے۔ 1989 سے فعال نہ ہونے والے اس آرٹیکل کو استعمال کیا جائے گا۔ غزہ میں فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ اس جنگ کو خطے کے دوسرے ممالک تک پھیلنے سے روکنے کی سخت ضرورت ہے۔
غزہ سے فلسطینی وزارت صحت نے کہا ہے کہ اب تک صہیونی حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد 18 ہزار ہوگئی ہے جبکہ 46 ہزار زخمی ہیں جن میں سے 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ 60 فیصد گھر مکمل تباہ ہوگئے ہیں۔
اشرف القدرہ کے مطابق غزہ میں کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ ہر جگہ صہیونی فوج حملے کررہی ہے۔
سخت محاصرے کی وجہ سے ایندھن اور غذائی مواد کی شدید قلت ہے۔ بجلی اور طبی وسائل ختم ہوگئے ہیں۔ سردیوں کے آغاز میں خواتین اور بچوں کے لئے مزید مشکلات بڑھیں گی۔
انٹونی گوتریش نے سلامتی کونسل کے صدر خوزے خاویر لوپز کو لکھا ہے کہ اگر غزہ کا نظام مزید تباہ ہوا تو انسانی امداد کی فراہمی کے امکانات مکمل ختم ہوجائیں گے۔
سلامتی کونسل کا غیر منصفانہ رویہ
یہ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کا سب سے بااختیار ادارہ یعنی سلامتی کونسل دنیا میں امن اور صلح کے قیام میں مکمل ناکام ہوگئی ہے۔ مغربی طاقتیں ویٹو پاور کے ذریعے عدالت اور انصاف کو اپنے سیاسی مفادات پر قربان کررہی ہیں۔
حالیہ سالوں کے دوران یمن اور فلسطین کے حوالے سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی۔ بے عدالتی کی وجہ سے یمن اور فلسطین کے لوگوں کا خون بہایا گیا۔
غزہ پر جارحیت کے دو مہینوں کے اندر سلامتی کونسل فقط ایک مرتبہ جنگ بندی کے لئے قرارداد منظور کی۔ قرارداد میں نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے حملہ آور اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی گئی۔
ان حالات میں گوتریش نے غزہ کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے اپنے حق کا استعمال کیا البتہ گذشتہ ہفتے امریکہ کی جانب سے ویٹو پاور استعمال کرنے کے بعد غزہ پر صہیونی جنایت کا خاتمہ مزید مشکل نظر آتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے اپنے حق کا استعمال کرکے عالمی امن کے حوالے سے ادارے کو اپنی ذمہ داری کی طرف متوجہ کیا ہے دوسری وجہ عالمی سطح پر ادارے پر عوام کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔
گوتریش نے اس اقدام کے ذریعے ادارے کا وقار دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اگرچہ امریکہ نے اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرکے گوتریش کی کوشش ناکام بنادی تاہم ان کے خط اور بڑے اقدام سے دنیا پر واضح ہوگیا کہ صہیونی حکومت غزہ میں بڑے جرائم کی مرتکب ہورہی ہے۔
عمومی طور پر اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل مغربی ممالک کا ایک مہرہ سمجھا جاتا ہے جس کو ادارے پر مسلط کیا جاتا ہے اسی لئے ان کے مفادات کے خلاف ادارے کا سربراہ کوئی ایکش نہی لیتا ہے۔
گوتریش نے مغربی ممالک کی مرضی کے خلاف یہ اقدام کرکے صہیونی حکومت کو شدید ناراض کیا۔
اقوام متحدہ میں صہیونی نمائندے نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے یہ اقدام کرکے اخلاقی انحطاط کا مظاہرہ کیا ہے۔