[]
عدالتی نظام میں اصلاحات” کے منصوبے کی منظوری کو روکنے کے لیے حزب اختلاف کی طرف سے کئی ماہ کے سیاسی دباؤ کے باوجود، صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی بنیاد پرست حکومت نے اس متنازعہ منصوبے کو مرحلہ وار نافذ کرنے کا عزم کیا ہے اور اس سلسلے میں پیر کی رات اس حکومت کی پارلیمنٹ میں اپنی پہلی خواندگی (ریڈنگ) میں، کنیسٹ نے بل کے ایک اہم حصے کی منظوری دے دی ہے۔ اس متن کو ایک ہنگامہ خیز اجلاس میں منظور کیا گیا اور اسے 64 ووٹ ملے، جو کہ سخت گیر کابینہ اتحاد کے نمائندوں کی تعداد ہے جبکہ اپوزیشن کے تمام 56 نمائندوں نے اس متن کے خلاف ووٹ دیا۔ “مناسب استدلال کی شق” کے نام سے موسوم اس بل میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر پابندیاں شامل ہیں‘‘ جو حکومت، وزراء اور منتخب عہدیداروں کے فیصلوں کو ججوں سے ان کے اختیارات چھین کر سپریم کورٹ کی صلاحیت کو محدود کرسکتی ہیں۔
اس منصوبے کو قانون بننے اور موثر بنانے کے لیے، اسے 120 رکنی کنیسٹ(پارلیمنٹ) میں 3 ریڈنگز میں ووٹ دیا جانا چاہیئے۔ موجودہ پارلیمنٹ کو زیادہ تر انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں تشکیل دیتی ہیں اور چونکہ پارلیمنٹ سخت گیر افراد کے زیر کنٹرول ہے، اس لیے نیتن یاہو کو اس سلسلے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ لیکن چونکہ اس منصوبے کو شدید مخالفت کا سامنا ہے اور اس نے گذشتہ مہینوں میں اندرونی بحران کی تشکیل کو ہوا دی ہے، اس لیے نیتن یاہو نے بحران کے دائرہ کار میں توسیع کو روکنے کے لیے اس اقدام کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے درست قرار دیا کہ اس کا مقصد اداروں کے درمیان عدالتی اختیارات میں کمی کرکے توازن پیدا کرنا ہے اور یہ پارلیمنٹ کے فائدے کے لیے بہترین کام ہے۔
اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے ایک ویڈیو میں نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ ’’یہ بل جمہوریت کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ یہ جمہوریت کی مضبوطی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا عدالتی نظام میں اصلاحات کے بعد بھی اسرائیل میں شہریوں کی آزادی اور حقوق کو کسی بھی طرح سے نقصان نہیں پہنچایا جائے گا اور عدالت حکومت کے اقدامات اور تقرریوں کی قانونی حیثیت کی نگرانی جاری رکھے گی۔ نیتن یاہو نے عدالتی قوانین کے حوالے سے صیہونی حکومت کے سربراہ یتزاک ہرزوگ کی تجویز کو قبول نہیں کیا اور عدالتی نظام میں اصلاحات کے متفقہ منصوبے تک پہنچنے کے مقصد سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے ان میں اصلاحات کو ملتوی کر دیا اور کہا کہ وہ عدالتی نظام کو روکنے کے لیے کوششیں نہیں کریں گے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی کے منصوبے کی منظوری پر بڑے پیمانے پر ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے، اس اقدام نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کو ناراض کیا ہے اور حزب اختلاف کے رہنماء یائر لاپیڈ نے قانون سازوں سے خطاب میں بل کی مذمت کرتے ہوئے نیتن یاہو سے کہا، “آپ وعدہ کرتے ہیں کہ آپ نے کمزوروں کی مدد کی اور اسرائیل کو محفوظ رکھا، لیکن تم پاگل پن کے سوا کچھ نہیں کرتے۔” واضح رہے کہ حکومت کے خلاف مہینوں ملک گیر مظاہروں کے دوران مظاہرین نے نیتن یاہو پر آمریت قائم کرنے کا الزام لگایا اور انہیں فرعون تک کہا۔
متنازعہ منصوبے کا متن
پہلی ریڈنگ میں منظور شدہ متن خاص طور پر وزراء کی تقرری پر اثر انداز ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے اقدامات پر صرف سپریم کورٹ کو ہی معروضی نگرانی کا اختیار حاصل ہوگا اور کابینہ کے انتخاب کے حوالے سے عدالت کو اس پر اثر انداز ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ جنوری میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے نیتن یاہو کو ٹیکس چوری کے مرتکب اسرائیلی وزیر دفاع آریہ دیری کو برطرف کرنے پر مجبور کیا، لیکن نئے منصوبے کی منظوری کے ساتھ، سپریم کورٹ حکومت کو وزراء کو تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ عدالتی اصلاحات کا یہ منصوبہ، جس پر سخت گیر گروہ اصرار کر رہے ہیں، اس کے نافذ ہونے سے قانون سازی اور عوامی پالیسی پر عدلیہ کا اثر و رسوخ محدود ہوجائیگا۔ عدالتی نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرکے، عدالتی تقرریوں پر حکومت کا کنٹرول بڑھ جائیگا اور عدالت کے قانونی اختیارات محدود ہوجائیں گے۔
یہ نیا قانون پارلیمنٹ Knesset کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کو سادہ اکثریت سے کالعدم کرنے کا اختیار دے گا، جس سے قوانین اور انتظامی کارروائیوں پر نظرثانی کے حوالے سے عدالت کی صلاحیت کم ہوجائیگی اور یہ بل عدالت کو قوانین کی آئینی حیثیت پر فیصلہ دینے سے روک دیگا۔ ججوں کی سلیکشن کمیٹی کی تشکیل بھی اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت اور ان کا تقرر حکومت کرے گی۔ نیتن یاہو کی حکومت، جو دسمبر 2022ء کے آخر میں انتہائی دائیں بازو اور دیگر سخت گیر جماعتوں کی شراکت سے قائم ہوئی تھی، عدالتی اصلاحات کے ایک ایسے منصوبے کو منظور کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کا مقصد عدلیہ پر Knesset پارلیمنٹ کی طاقت کو برتری دینا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ حکومتی اداروں کے درمیان بہتر توازن کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں، لیکن مخالفین انھیں اسرائیل کی جمہوریت اور ریگولیٹری ادارہ جاتی ضمانتوں کے لیے خطرہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اگرچہ نیتن یاہو نے سیاسی دباؤ کو کم کرنے کے لیے صہیونی مظاہروں کے پہلے ہفتوں میں اپنے منصوبے سے دستبرداری اختیار کی تھی اور کہا تھا کہ انھوں نے اسے روک دیا ہے، لیکن آخرکار انھوں نے کابینہ میں سخت گیر لوگوں کے دباؤ کو تسلیم کر لیا۔ کیونکہ داخلی سلامتی کے وزیر اٹامار بین گوئیر جیسے لوگوں نے، جو اس منصوبے کے کٹر حامی ہیں، نے دھمکی دی تھی کہ اگر نیتن یاہو ان کی درخواست پر راضی نہیں ہوئے، تو وہ کابینہ کے اتحاد کو چھوڑ دیں گے۔ اس کا مطلب بین گوئیر کی پارٹی کے 15 ارکان کا اتحاد سے الگ ہونا ہے۔ 15 نشستیں حکومت کے خاتمے کا باعث بنیں گی۔ اسی وجہ سے نیتن یاہو نے اپنے اتحادیوں کی خواہشات کو تسلیم کر لیا۔
وسیع پیمانے پر احتجاج جاری
متنازعہ منصوبے کی مخالفت میں پانچ ماہ قبل سے ہفتہ وار سڑکوں پر آنے والے حکومت کے مخالفین نے اس بار منگل کی صبح سے ہی مقبوضہ علاقوں کی مختلف سڑکوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور وہ بین گورین ایئرپورٹ کے سامنے دھرنا دینے والے ہیں۔ آج شام “اسحاق ہرزوگ” کے گھر اور تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔ “فالج کے دن” کے موقع پر مظاہرین بین گوریون ہوائی اڈے پر ایک بڑے مظاہرے کو منظم کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں، جبکہ اسرائیلی پولیس نے نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے اپنی افواج کو متحرک کر دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ مظاہرین کو ہوائی اڈے کے اندر داخل نہیں ہونے دیں گے۔ نیتن یاہو کے مخالفین نے مرکزی نکات اور اہم سڑکوں پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور توقع ہے کہ وہ منگل کی رات تک یہ احتجاج جاری رکھیں گے اور احتجاج کا دائرہ بتدریج بڑھتا جائے گا۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ اگر نیتن یاہو نے اس منصوبے پر عمل درآمد کیا تو وہ لاکھوں کی تعداد میں مظاہرے کریں گے اور اس طرح مقبوضہ علاقے آنے والے دنوں میں متعدد سیاسی واقعات سے بھرے ہوں گے۔ اس سے بہت سی ایسی چیزیں ہوں گی، جو معاملات کو سنبھالنے میں حکومت کے کام میں خلل کا باعث بنیں گی۔ صیہونی حکومت کے مخالف گروپوں کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ کے عدالتی تبدیلیوں کے بل کا ہدف اس حکومت کے عدالتی نظام کو کمزور کرنا ہے، جبکہ نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ وہ اپنے خلاف بدعنوانی اور رشوت ستانی کے تین مقدمات کی سماعت کو روکنے میں کامیابی حاصل کریں، جبکہ مخالفین کا خیال ہے کہ ان کارروائیوں کا نتیجہ عدالتی نظام کو کمزور کرنا ہے۔
اس بل کی منظوری صیہونی حکومت کو تنازعات کی طرف لے جائے گی اور یہ خانہ جنگی اور بتدریج حکومت کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بل ملک کے چیک اینڈ بیلنس کے نازک نظام کو ڈسٹرب کرنے کے ساتھ طاقت کو نیتن یاہو اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھ میں مرکوز کرنے کا باعث بنے گا۔ مظاہرین کا خیال ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے اور نیتن یاہو اور ان کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کی طرف سے عدلیہ کی آزادی کو کم کرنے کے اقدام کے سنگین سفارتی اور اقتصادی نتائج ہوں گے۔ ادھر حالیہ مہینوں میں امریکہ سمیت مغربی ممالک نے اس منصوبے کی مخالفت کا اظہار کیا ہے اور یہ تل ابیب اور واشنگٹن کے حکام کے درمیان زبانی تصادم کا باعث بھی بن چکا ہے۔ اس سے قابض حکومت کی مغربی حمایت میں کمی اور مقبوضہ علاقوں میں سکیورٹی کے حالات مزید کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہے۔
صیہونی حکومت کے پاس اپنی بظاہر جمہوری بنیادوں اور پارلیمنٹ کی حفاظت کے لیے کوئی آئین نہیں ہے۔ عدلیہ با اختیار ہے اور قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے، جس میں حزب اختلاف کی 56 سیٹوں کے مقابلے میں حکومت کو 64 نشستوں سے اکثریت حاصل ہے۔ اس حکومت میں صدر کا دفتر زیادہ تر رسمی ہوتا ہے اور سپریم کورٹ کو جمہوریت کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، جو شہری حقوق اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھتی ہے۔ عدلیہ کے اختیارات میں کمی سے حکومت اور پارلیمنٹ کو وسیع اختیارات حاصل ہوں گے، جو کہ اپوزیشن کے مطابق حکومت کو آمریت کی طرف لے جائیں گے۔ صیہونیوں کے لیے تشویشناک مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی اور سکیورٹی خلا روز بروز پھیلتا جا رہا ہے اور یہ دنیا کی محفوظ ترین حکومت کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔ حالیہ مہینوں میں ہفتہ وار مظاہروں کے علاوہ، جس نے اسرائیل میں روزمرہ کی زندگی کو درہم برہم کر دیا ہے، فوج کے اندر بھی اس منصوبے کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔
اسپیشل ریزرو یونٹس کے سینکڑوں ارکان نے فوج میں رضاکارانہ طور پر شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے، کیونکہ وہ اسے بغاوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اسرائیلی عدالتی نظام کے خلاف کسی بھی کارروائی سے انکار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ فضائی اور زمینی افواج میں بھی گذشتہ مہینوں میں ہزاروں افراد نے حکومتی احکامات کی خلاف ورزی کی ہے اور بعض فوجیوں اور افسروں نے بیرکوں میں اپنی پوسٹیں چھوڑ دی ہیں اور اس معاملے نے مقبوضہ علاقوں کے عدم تحفظ کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ مقبوضہ علاقوں کی صورت حال اس قدر گھمبیر ہوچکی ہے کہ صدر اسحاق ہرزوگ بارہا اعتراف کرچکے ہیں کہ اس عمل کا تسلسل اسرائیل کو تباہی کی کھائی میں لے جائے گا۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کابینہ کے انتہاء پسند افراد بہت سے خطرناک منصوبوں خاص طور پر مغربی کنارے کے حوالے سے پلاننگ کر رہے ہیں، اس لیے حکومتی اختیارات میں اضافے کے ساتھ ہی فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے ساتھ کشیدگی میں شدت آئے گی اور یہ مسئلہ مقبوضہ علاقوں کو مزید غیر محفوظ بنا دے گا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰