"جیل ہمارے لئے قبرستان تھی" اسرائیلی جیل سے آزاد ہونے والی فلسطینی لڑکی کی درد بھری کہانی

[]

مہر خبررساں ایجنسی،بین الاقوامی ڈیسک؛ اسرائیلی جیل سے حال ہی میں رہا ہونے والی فلسطینی لڑکی روان ابوزیادہ کے گھر میں رہائی کا کوئی جشن نہیں منایا جارہا ہے۔ ان کے گھر والے اپنی جوان لڑکی کی رہائی اور خاندان میں واپسی کے بعد خوش ضرور ہیں تاہم غزہ اور غرب اردن میں صہیونی حملوں میں شہید ہونے والوں کے سوگ میں کوئی جشن وغیرہ نہیں منایا جارہا ہے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں 29 سالہ روان ابوزیادہ بھی جیل سے رہا ہوکر رام اللہ کے مغرب میں واقع قصبے بلیتو میں اپنے گھر پہنچ گئی ہے۔

 ابوزیادہ کو 2015 میں صہیونی فورسز نے گرفتار کرکے 9 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ان کی سزا میں مزید 8 مہینے باقی تھے تاہم قیدیوں کے تبادلے کے تحت آزادی ملنے پر ابوزیادہ خوش ہیں کیونکہ ان کے مطابق صہیونی جیل میں ایک دن سال کے برابر لگتا تھا۔

الجزیرہ چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایمان اور اللہ سے امید نہ ہوتی تو ہم اسرائیلی مایوس کن فیصلوں کے سامنے سرنڈر کرنے پر مجبور ہوتے۔

جیلوں میں قید فلسطینی خواتین تبادلے کا زیادہ انتطار کررہی تھیں کیونکہ ان میں سے بعض زخمی اور بچوں کی مائیں تھیں۔ جیل میں موجود خواتین کو یقین تھا کہ صرف قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے ان کو رہائی مل سکتی ہے۔

فلسطینی لڑکی نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکام کوشش کرتے تھے کہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو قیدیوں سے چھپائیں تاکہ ان کو کوئی خوشی نہ ملے جب خبریں موصول ہونے لگیں تو کہنے لگے کہ 7 اکتوبر کے بعد گرفتار ہونے والی خواتین اس معاہدے میں شامل نہیں ہیں۔

ابوزیادہ نے صہیونی جیلوں میں فلسطینی خواتین پر ہونے والے مظالم کے بارے میں کہا کہ غزہ پر صہیونی حملے کے بعد اسرائیلی جیلوں کے انتظامات بہت سخت کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ جیلیں قبرستان میں بدل گئی ہیں۔

انہوں نے جیل میں ہماری زیراستعمال کرسیاں بھی اٹھالیں۔ کوٹھریوں میں لکڑی کے سادہ بیڈ کے علاوہ کچھ ہمارے پاس نہیں تھا یہاں تک ہمارے زیراستعمال لباس اور غذائیں بھی چھین گئیں۔

جیلوں کے اندر کئی مرتبہ کیمیکل گیس استعمال کیا گیا۔ کوٹھریوں پر حملہ کرکے خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کو تنہائی میں رکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے بھی جیلوں میں سخت حالات کا سامنا تھا لیکن طوفان الاقصی کے بعد کی سختیاں کسی بھی طور پر پہلے والی حالت سے قابل موازنہ نہیں ہیں۔

کچھ سالوں سے قیدیوں کو بعض سہولتیں ملنا شروع ہوئی تھیں لیکن غزہ کی جنگ کے بعد ان تمام سہولتوں کو ختم کرکے قید تنہائی میں رکھنا شروع کیا گیا۔

یاد رہے کہ روان ابوزیادہ کے گھر والوں کو بھی صہیونیوں نے اذیت دی جب ان کے باپ اور بھائیوں نے جیل کے باہر ان کی رہائی کے لئے احتجاج کیا تو ان کے خلاف آنسو گیس استعمال کیا گیا۔

روان ابوزیادہ سے پہلے ان کے باپ نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیٹی کی رہائی پر خوشی ضرور ہے لیکن خوف ہوتا ہے کہ اسرائیل فلسطینی خواتین قیدیوں کے حوالے سے عہد شکنی کرے گا۔ 

"جیل ہمارے لئے قبرستان تھی" اسرائیلی جیل سے آزاد ہونے والی فلسطینی لڑکی کی درد بھری کہانی

روان ابوزیادہ جیل میں باپ کے دیدار سے محروم تھی کیونکہ صہیونیوں نے ان دونوں کو ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا۔ کئی سال بعد گھر واپسی کے بعد روان ابوزیادہ کو ہر چیز بدلی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ان کے مطابق گھر والوں کے چہرے تک بدل گئے ہیں۔ میرے خاندان میں 12 پوتے پوتیوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی کے بعد مجھے اپنا گھر بھی پرایا لگتا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *