اسرائیل کا بائیکاٹ اور صہیونی حکومت پر پابندیاں لگائی جائے

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ گذشتہ 42 دنوں سے صہیونی فورسز فسلطینی شہریوں کو غزہ کے جنوب کی طرف دھکیلنے کے قصد سے شمالی غزہ پر شدید حملے کررہی ہیں۔ 7 اکتوبر کو صہیونی حکومت کے خلاف آپریشن طوفان الاقصی کے بعد سے اسرائیلی حکومت نے ساحلی علاقوں بشمول اسپتالوں، رہائش گاہوں اور عبادت گاہوں پر مسلسل فضائی اور زمینی حملے شروع کر رکھے ہیں۔ جن میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 12 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

غزہ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق 22 ہسپتال اور 49 طبی مراکز ایندھن کی کمی کے باعث مکمل بند ہوگئے ہیں۔ 

1967سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے سابق خصوصی نمائندے اور پرنسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے ایک امریکی پروفیسر ایمریٹس رچرڈ اینڈرسن فالک کے غزہ جنگ کے حوالے سے انٹرویو کا متن ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔

مہر نیوز؛ آپ غزہ جنگ کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ہونے والی پیش قدمی کے بارے میں کیا تبصرہ کرتے ہیں؟ کیا امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی طرف سے اسرائیلی حکومت کی حمایت جائز ہے؟

پروفیسر ایمریٹس رچرڈ اینڈرسن فالک: اس سوال کے دو تفصیلی جوابات ہیں۔ سب سے پہلے گلوبل ویسٹ اور گلوبل ساوتھ کے درمیان فرق کرنا ہے۔ مغرب میں امریکہ یورپی یونین کے کئی ممالک اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں جبکہ گلوبل ساؤتھ جس میں 7 اکتوبر کے حماس کے حملے پر اسرائیلی ردعمل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی عمومی مخالفت ہے۔ دوسرا اسرائیل اور اس کی حمایت کرنے والے ممالک میں حکومتوں اور عوام کے درمیان فرق کرنا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ میں سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں اور مظاہروں سے پتہ چلتا ہے کہ عوام غزہ میں فوری جنگ بندی چاہتے ہیں جب کہ حکومتیں اگرچہ دبے لہجے کیوں نہ ہو، اسرائیل کے فوجی آپریشن کی حمایت کرتی ہیں۔

اسرائیل اور اس کے مغربی حامیوں کی جانب سے اپنے دفاع کے حق کا خوب چرچا کیا گیا جس کا بین الاقوامی قانون کے تناظر میں کسی بھی ملک کو حق حاصل ہے تاہم غزہ میں سویلین مقامات اور سکولوں، ہستپالون، مساجد، گرجاگروں اور پناہ گزینوں کے کیمپوں کو نشانہ بنا کر صہیونی حکومت نے اپنا یہ حق ضائع کردیا اور خود کو بدنام کردیا۔

چونکہ اسرائیل غزہ پر قابض ہے لہذا قبضے سے متعلق چوتھے جنیوا کنونشن میں طے شدہ قانونی فریم ورک کے تابع ہے، اور اس کا بنیادی فرض ہے جو کہ مقبوضہ آبادی کی فلاح و بہبود کے تحفظ کے لیے معاہدے کی دفعات میں بیان کیا گیا ہے۔ اسے اپنے دفاع کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ بین الاقوامی حقوق میں یہ حق اس وقت دیا جاتا ہے جب بیرونی کوئی طاقت حملہ آور ہوجائے۔ حماس کا حملہ بیرونی نہیں بلکہ اسی دائرے کے اندر سے ہوا ہے۔

مہر نیوز؛ اگرچہ صہیونی حکومت کھلم کھلا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے لیکن اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی ادارے اسرائیل کے خلاف کوئی فیصلہ کن اور عملی اقدام اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ عالمی تنظیمیں اسرائیلی جرائم کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیوں نہیں کر سکتیں؟

پروفیسر ایمریٹس رچرڈ اینڈرسن فالک: ہمیں یہ حقیقت یاد رکھنا چاہئے کہ اقوام متحدہ کے بانیوں نے اس کو کمزور بنانے کے لیے مخصوص شکل دی ہے۔ عالمی جنگ دوم کے فاتحین کو سلامتی کونسل میں ویٹو کی طاقت دی تھی، جو اس وقت دنیا کے سب سے طاقتور ممالک تصور کیے جاتے تھے۔ دنیا کی بڑی آبادی کی نمائندگی کے باوجود جنرل اسمبلی کے اختیار کو سفارشات اور مخصوص حقائق کی تلاش کے اقدامات تک محدود کرتے ہوئے بھی کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے پورے چارٹر میں چارٹر کی متعدد دفعات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ تنظیم جغرافیائی سیاست کی اولین ترجیح دیتی ہے۔ اس کا مطلب عملی طور پر، اقوام متحدہ صرف اس وقت کارآمد ہو سکتا ہے جب پانچ طاقتیں معاہدے پر اتفاق کریں اور اگر ان کے درمیان کوئی اختلافات ہوجائیں تو ادارہ مفلوج ہوجاتا ہے۔ سیکورٹی کونسل کی طرف سے اتفاق کے باوجود اقوام متحدہ فنڈز اور عملے کے بغیر اس کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتی ہے۔

مہر نیوز؛ آپ کے مطابق غزہ میں شہریوں پر اسرائیلی حکومت کے وحشیانہ حملوں کا جواز پیش کرنے میں صیہونی سے وابستہ عالمی میڈیا کس حد تک کامیاب ہے؟

پروفیسر ایمریٹس رچرڈ اینڈرسن فالک: ذرائع ابلاغ نے صہیونی حکومت کے ابتدائی ردعمل کو جواز فراہم کیا لیکن نتن یاہو اور گلانٹ جیسے صہیونی رہنماوں کے واضح بیانات کی وجہ سے یہ کام مزید دشوار ہوگیا کیونکہ 7اکتوبر کو ہونے والے حماس کے حملوں کے خلاف ردعمل وقت گزرنے کے ساتھ ماند پڑگیا۔ صہیونی حکومت نے غزہ کے لوگوں کو خوراک، ایندھن اور بجلی سے محروم کرنے کا حکم نامہ جاری کرکے اپنی بدنامی کا سامان فراہم کیا۔

مہر نیوز؛ اسرائیلی جرائم کو روکنے کے لیے مسلمان ممالک کو کیا کرنا چاہیے؟

پروفیسر ایمریٹس رچرڈ اینڈرسن فالک: یہ اہم چیلنج ہے خلاصہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کو خاص طور پر بلکہ دنیا کے تمام ممالک کو جنگ بندی کے مطالبے سے زیادہ بڑے اقدامات کرنا چاہیے۔ انہیں کم از کم ایسا ضرور کرنا چاہیے کہ اسرائیل کو روکنے کے لیے بائیکاٹ اور پابندیوں، نسل کشی کی مذمت میں قرارداد اور ٹھوس کارروائی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مستقبل میں اسرائیل کو جوابدہ بناکر فسلطینیوں کے لئے عادلانہ صلح فراہم کیا جائے۔ یہ پوری انسانیت کے لئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوسکتا ہے البتہ اس کے لئے فوری اور خلوص سے کام کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فسلطینیوں پر ڈھائے گئے مظالم کے بارے میں ہم اپنے آپ کو غیرجانبدار قرار نہیں دے سکتے۔ حکومتی عہدیداروں کے ظاہری بیانات کے بجائے مختلف ممالک کی سڑکوں پر عوام کے جم غفیر سے اٹھنے والی صداوں پر توجہ دینا چاہئے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *