[]
حمید عادل
انتخابات سے قبل ہار کے خوف سے بوکھلا کر کسی سیاست داں نے کہہ دیا ’’ دنیا کی کوئی طاقت مجھے اقتدار سے دور نہیں کرسکتی!‘‘ اور جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو وہ اور ان کی جماعت اقتدار سے ہاتھ دھو چکے تھے… دراصل وہ اقتدار پر قابض ہوکرعوام کو بھول گئے تھے، چنانچہ عوام نے انہیں بھلا کر گویا یہ پیام دیا کہ …
سمجھ رہا ہو کہیں خود کو میری کمزوری
تو اس سے کہہ دو مجھے بھولنا بھی آتا ہے
وسیم بریلوی
سیاست داں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ عوام کو مچھلی دیتے رہو انہیں مچھلی پکڑنے کا موقع نہ دو، کیوں کہ اگر وہ مچھلی خود سے پکڑنے لگیں گے تو ہماری حیثیت ختم ہو جائے گی…آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام مچھلی دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے مچھلی پکڑ کر دکھائیں تاکہ سیاست دانوں کو اپنی اوقات یاد آجائے …
پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا اعلان کیا ہوا ہے، روایتی اور لچھے دار تقریروں کا ایک بار پھر گویادور شروع ہوچکا ہے …چنانچہ ایک نامور سیاست داں نے تقریر کرتے ہوئے کہا ’’ ملک کے تمام مسائل کی ذمے دارسابقہ حکومت ہے۔‘‘جس پر ایک سوشیل میڈیا صارف نے جواب دے مارا:’’اور ان مسائل کا حل صرف اور صرف تقریر ہے۔‘‘
رائے دہندوں کو لبھانے کے لیے سیاست داں ایک دوسرے پر بازی لے جارہے ہیں ،برسراقتدار آنے پر مخالف پارٹی گیاس سیلنڈرپانچ سو روپئے میں دینے تیار ہے تو برسر اقتدار جماعت چار سو روپیوں میں… سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گیاس سیلنڈر کی قیمت میں کمی کا خیال برسر اقتدار پارٹی کو پہلے کیوں نہیں آیا؟ کیوں وہ عوام سے مسلسل بھاری رقم اینٹھتی رہی؟…ہم نے انتخابات سے قبل مچی افرا تفری کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’ نیند ہماری خواب تمہارے‘‘ کے تحت ملک کے ایک سرکردہ سیاست داں کو دعوت نامہ بھیجا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمارے خواب میں آنے پر رضا مندی ظاہر کی، جسے ہم نے بے چوں و چرا قبول کرلیا …ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو آم کھانے کی بجائے پیڑ گن کر اپنا وقت او رموڈ خراب کرتے ہیں …
حیرت انگیز طور پر وعدے کے مطابق معزز سیاست داں ہمارے خواب میں وارد ہوگئے، جنہوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے کبھی کوئی وعدہ وفا نہیں کیا …ہم نے ان کاپرتپاک استقبال کرتے ہوئے کہا ’’ہمیںبے انتہا خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنا کوئی تو وعدہ وفا کیا ۔‘‘
مدعوسیاست داں نے مسکرا کرکہا:عوام سے کیے گئے وعدے وفا نہ کرنے پرمجھے تم جو چاہے کہہ لو،میں تو نامور شاعر عبرت مچھلی شہری کے اس شعر کامداح ہوں:
کیوں پشیماں ہو اگر وعدہ وفا ہو نہ سکا
کہیں وعدے بھی نبھانے کے لئے ہوتے ہیں
’’بہت خوب!بلاشبہ وہ سیاست داں ہی کیا جو پشیماں ہوجائے،پشیماںتو ہمیشہ عوام ہی ہوتے ہیں کہ آخر ہم نے کسے منتخب کرلیا…
سیاست داں کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن الفاظ شاید ان کے حلق میں آکر پھنس گئے …ہم نے انہیں کریدا’’ پچھلے دنوں آپ کا نعرہ ’’ہمارا جھوٹ سب سے مضبوط‘‘ نے خوب رنگ جمایا تھا…اس اچھوتے نعرے کو سن کر یوںمحسوس ہوتا ہے کہ آپ از خوداپنے جھوٹ کی تشہیر کررہے ہیں، بلکہ آپ کو فخر ہے کہ آپ جھوٹ کہنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں …‘‘
ہمارے طنز کا سیاست داں پر کوئی اثر نہیں ہوا، اور انہوں نے نہایت لاپرواہی سے جواب دیا ’’ جھوٹ اور سیاست داں ایک سکے کے دو رخ ہوا کرتے ہیں …اور اس حقیقت کوسب جانتے ہیں تو پھر دعویٰ کرنے میں کیا قباحت ہے کہ ’’ہمارا جھوٹ سب سے مضبوط‘‘ اور پھر ہمارا جھوٹ ایسا میٹھاجھوٹ ہوتا ہے کہ لوگ اسے بآسانی ہضم کرجاتے ہیں ……‘‘
’’آپ نے اپنے جھوٹ کی جس طرح سچے دل سے تعریف کی ،اس کا جواب نہیں جناب!‘‘
’’عادل! میں جو کہتا ہوں،ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں، نہ صرف جھوٹ کہتا ہوں بلکہ اس پر قائم رہنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہوں میں…موقع کی مناسبت سے مجھے ایک اور شعر یاد آرہا ہے ، اجازت ہو تو سنادوں …‘‘
’’ ارشاد ، ارشاد‘‘ ہم نے نعرہ مارا۔
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیئے
’’واہ ! صاحب کردارہونا چاہیے کا جواب نہیں!‘‘
’’جی بالکل !‘‘سیاست داں نے اپنی بے شرمی کو بدستور قائم رکھتے ہوئے کہا۔
’’ لوک سبھا انتخابات کے علاوہ جہاں کہیں اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں،آپ ووٹ مانگنے ڈھٹائی سے پہنچ جاتے ہیں،حالانکہ آپ کوئی انتخابی وعدہ وفا نہیں کرتے …یہ ہنر آپ نے کہاں سے سیکھا ہے؟
’’ہنرکا تو پتا نہیں ، بس اتنا جانتاہوں کہ ووٹ مانگنا سیاست داں کا پیدائشی حق ہوا کرتا ہے …‘‘
’’اور عوام کے حق کا کیا ؟‘‘
’’ خود عوام کو اپنے حق کی فکر نہیں تو ہم ان کے حق کی فکر کیوں کریں ؟‘‘
’’محترم! آپ کی صاف گوئی کا جواب نہیں لیکن یہ تو بتائیے کہ آپ کا ضمیر آپ کو جھنجھوڑتا نہیں کہ آپ کہیں نہ کہیں کچھ غلط کررہے ہیں ؟‘‘
’’ گربرائی کا احساس ہو تو ضمیر جھنجھوڑتا بھی ہے لیکن جب یہ احساس ہو کہ میں جو کررہا ہوں وہ درست ہے تو پھر بیچارہ ضمیر کیوں جھنجھوڑے گا؟ ویسے بھی میرا ضمیر اب کچھ نہیں کہتا…‘‘
’’ شاید مرچکا ہے …‘‘ ہم نے سرد آہ بھر کر کہا۔
’’ممکن ہے مر گیا ہو…اور میں سمجھتا ہوں کہ بات بات پر شور مچانے والوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیںہوتا ہے ۔‘‘
ہم نے موضوع بدل کر کہا ’’ ہم نے کہیں پڑھا تھا ’’غلط لوگوں کی جیت اسی وقت طے ہوجاتی ہے ، جب صحیح لوگ چپ ہوجاتے ہیں …‘‘یہ بات کہاں تک درست ہے؟‘‘
ہمارے سوال پرمحترم سیاست داں بدک گئے ، کہنے لگے ’’ اس سوال کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی …کہنا کیا چاہتے ہو ؟‘‘
جو ہم کہنا چاہتے ہیں وہ آپ سمجھ چکے ہیں ،پھر ہم سے سننے کی ضد کیوں؟ یہاں ہم تو صرف یہی کہیں گے ’’ اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا‘‘
’’میرے تعلق سے کوئی کچھ بھی کہہ لے، میں کوشش تو یہی کرتا ہوں کہ اس دیش کی جنتا کو راحت پہنچاؤں… ‘‘ معزز سیاست داں نے بڑے پر جوش انداز میں کہا۔
لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ آپ کا استعفیٰ ہی ملک کے لیے سب سے بڑا ’’ راحت پیاکیج‘‘ ہوگا…
’’ جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ، دراصل وہ میری کامیابیوں سے جلتے ہیں …‘‘
’’کیا آپ کی کامیابیاں بھی ہیں ؟‘‘… اور پھر ہم نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ’’ارے ہاں یاد آیا، آپ اپنی ہر ناکامی کو کامیابی گردانتے ہیں ۔‘‘اور پھر قدرے توقف سے ہم نے کہا:
’’آپ کی زبان کی لغزش یا پھسلن کی بدولت ایسی ایسی ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں کہ جنہیں سن کر آدمی لوٹ پوٹ ہوجاتا ہے …پچھلے دنوں تو آپ نے حد ہی کردی، سوشیل میڈیا پر آپ کا ایک پیام دیکھا کہ ’’پیارے ہم وطنو!تفریح اور جملے بازی میں کوئی کمی نہیں ہوگی، بھلے ہی روٹی ملے نہ ملے …‘‘ اس بیان کو پڑھ کرہنسی بھی آئی اور ہم آپ کی غیر معمولی سادگی کے دل سے قائل بھی ہوگئے ۔‘‘
’’تم کیا سمجھتے ہو، جو میں کہتاہوں وہ میری زبان کی لغزش ہوتی ہے ، قطعی نہیں …میں جان بوجھ کر ایسی تقریر کرتا ہوں کہ تھکے ماندے ذہنوں کو کچھ دیر کے لیے ہی سہی مسکرانے پر مجبور کرسکوں … انہیں ہنسا سکوں …ان کے درد کودور کرسکوں …‘‘اور یہ کہتے ہوئے خود معزز سیاست داں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے …
ہم نے فوری سوال دے مارا ’’ آپ رو رہے ہیں ؟‘‘
’’ میں رونہیں رہا ہوں …یہ تو خوشی کے آنسو ہیں کہ میں اس ملک کے عوام کو جو ہنسنا بھول چکے ہیں ،اپنی اوٹ پٹانگ باتوںکے ذریعے وقتاً فوقتاً انہیںہنسانے میں کامیاب ہوجاتا ہوں ۔‘‘
’’ محترم! آپ کی کوشش بے مثال ہے ، ایک سوال جو بڑی دیر سے دل میں مچل رہا ہے ، اسے کرتا چلو کہ آپ نے کرپشن کے خلاف ایک جنگ سی چھیڑ رکھی ہے ،لیکن یہ کیا بات ہے کہ آپ کی پارٹی بڑے سے بڑے کرپٹ لیڈر کو پناہ دیتی ہے ؟‘‘
’’تم غلط سمجھ رہے ہو، ہماری پارٹی پناہ نہیں دیتی بلکہ ان کے پاپ دھو دیتی ہے تاکہ وہ بہتر طور پر ملک و قوم کی خدمت کرسکیں ۔‘‘
’’ آپ کی پارٹی نہ ہوئی واشنگ مشین ہوئی ۔‘‘
’’بالکل !درست کہا تم نے …ویسے بھی آج دیش کو ایک پارٹی کی نہیں، ایسی واشنگ مشین کی ضرورت ہے ، جو کرپشن کے بدنما داغ دھو ڈالے …‘‘
’’ آپ نے تو بات سے بات پیدا کردی … آپ کو تو قلم کار ہونا چاہیے تھا ۔‘‘
’’ کیا کرتا قلم کار ہوکر …‘‘ اور پھر ہمارا طائرانہ جائزہ لیتے ہوئے کہنے لگے ’’زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ تمہاری جگہ میں ہوتا اور کسی کامیاب سیاست داں کا انٹرویو لے کر خوش ہورہا ہوتا……‘‘
’’بحیثیت سیاست داں کیا آپ خوش ہیں ؟‘‘
’’ بہت خوش ہوں !‘‘
’’لیکن سنا ہے سکون کو ترس جاتے ہیں آپ اور نیند کی گولی کھانے پر بھی آپ کو نیند نہیں آتی…اس لیے آپ نے ایک نعرہ دیا ہواہے ’’ سوؤں گا، نہ سونے دوں گا‘‘ …اس نعرے کے بعد تو ملک کے عوام چین سے دو گھڑی سو بھی نہیں پارہے ہیں …مہنگائی ، بیروزگاری اور افرا تفری نے ان کے منہ سے دو وقت کی روٹی ہی نہیں آنکھوں سے نیند بھی چھین لی ہے …
دوستو! ہم بہت دیر تک بہت کچھ کہتے رہے اور جب کہتے کہتے تھک گئے تو دیکھا کہ معزز سیاست داں تو ہمارے خواب سے ایسے غائب ہوچکے ہیں جیسے انسان سے انسانیت … کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ سچ بہت کڑوا ہوتا ہے اور اسے کوئی جھوٹا برداشت نہیں کرسکتا…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰