فلسطین کی حمایت میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار کا استعفیٰ

[]

مہر خبررساں ایجنسی نے رشیا ٹو ڈے کے حوالے سے خبر دی ہے کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ڈائریکٹر کریگ مخیبر نے صیہونی رجیم کے ہاتھوں غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے میں اس بین الاقوامی ادارے کی ناکامی کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے کہا: اقوام متحدہ نے امریکہ اور اسرائیلی لابی کی طاقت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

اقوام متحدہ کے اس اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ اس ادارے نے امریکہ اور اسرائیلی لابی کی طاقت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، جب کہ قوم پرستی اور فلسطین پر قابضوں کی سامراجیت کا یورپی منصوبہ دم توڑ رہا ہے اور آخری مرحلے میں ہے!

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کو لکھے گئے خط میں مخیبر نے لکھا کہ ایک بار پھر، ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ایک نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور ہم جس تنظیم کی خدمت کرتے ہیں اسے روکنے کے لیے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔

انہوں نے لفظ “نسل کشی” کے استعمال اور غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے وحشیانہ اقدامات کے تسلسل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس لفظ کا اکثر سیاسی طور پر غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن فلسطینی عوام کا جاری اجتماعی قتل عام ایک نسلی، نوآبادیاتی اور قابض قوم پرست نظریے سے جڑا ہوا ہے اور اس میں شک اور بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

مخیبر نے زور دے کہا کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے بیشتر ممالک کی حکومتیں نہ صرف بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے بلکہ اس جارحیت کے لیے ہتھیار فراہم کرنے اور اقتصادی اور انٹیلی جنس مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سفارتی سطح پر دباؤ ڈالنے کی وجہ سے بھی اسرائیل کی اس بھیانک جارحیت میں مکمل طور پر شریک ہیں۔ 

مغربی میڈیا ہاوسز حکومتوں کے ساتھ مل کر اس جانبداری کو تقویت دیتی ہیں اور وہ نسل کشی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے فلسطینیوں کو انسان ہی نہیں سمجھ رہے اور اس پروپیگنڈہ وار اور قومی، نسلی یا مذہبی منافرت پھیلانے کا دفاع کرتے ہیں!

مستعفی ہونے والے اقوام متحدہ کے اہلکار کا خیال ہے کہ یہ ادارہ “پہلے، جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے دور میں، اصول پسندی اور اختیار کی طاقت رکھتا تھا لیکن بعد کے برسوں میں اس نے یہ تمام خصوصیات کھو دی ہیں اور اب اقوام متحدہ نسل کشی کو روکنے میں بارہا ناکام رہی ہے”؛ مثال کے طور پر، انہوں نے روانڈا، بوسنیا میں اسی طرح کے واقعات اور داعش کی درندگی اور میانمار میں روہنگیا کی نسل کشی کی طرف اشارہ کیا۔

انہوں نے بیان کیا کہ حالیہ دہائیوں میں اقوام متحدہ کے مرکزی ڈھانچے کی اہم باڈیوں نے امریکہ کی طاقت اور اسرائیلی لابی کے خوف کے سامنے ہتھیار ڈال دئے اور اپنے ہی بین الاقوامی قوانین سے پیچھے ہٹ گئے۔ ان اصولوں کو ترک کر کے ہم نے بہت سی چیزیں کھو دیں، خاص طور پر اپنی عالمی ساکھ لیکن ہماری نااہلی کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان فلسطینی عوام کو ہوا ہے۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے اقوام متحدہ کو ان دنوں دنیا بھر کے شہروں اور ان لوگوں کے اصولی موقف سے سبق سیکھنا چاہیے جو حملے اور گرفتاری کے خطرے کے باوجود اس نسل کشی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ 

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کو “دو ریاستی حل کا وہم” ختم کرنا چاہیے اور ایک آزاد اور جمہوری ریاست کے قیام کا دفاع کرنا چاہیے جتنا کہ فلسطین کی تاریخ پرانی ہے۔  ایک ایسا موقف جو یقینی طور پر اسرائیل کو ختم کرنے اور اکھاڑ پھینکنے کا باعث بنے گا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *