فلسطین پر بمباری کے باوجود شادیوں میں آتش بازی بے حسی کا نتیجہ

[]

حیدرآباد: پوری دنیا میں اس وقت الاقصیٰ کے نام سے جاری حماس، اسرائیل جنگ نہایت اہم موضوع بنا ہوا ہے۔ فلسطین کی مقدس سرزمین لہو لہان ہے۔

بلکتی مائیں، سسکتے بچے،تباہ حال عمارتیں،زخمیوں سے پُر دواخانے اور جگہ جگہ معصوم بچوں اور ماؤں کے جنازے پوری دنیا کو جھنجھوڑ رہی ہیں تو وہی غاصب و قابض اسرائیل اپنی سفاکانہ حرکتوں سے باز آنے کے بجائے مسلسل جنگی جرائم کا ارتکاب کرتا جارہا ہے۔

غزہ کی پٹی سے ہر دن آنے والی خبریں دلوں کو چیر رہی ہیں اور وہاں کے ہولناک مناظر انسانی جذبہ رکھنے والے ہر فرد کو بے چین کیے ہوئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مولانا غیاث احمد رشادی بانی و صدر منبر و محراب فاؤنڈیشن انڈیا نے اپنے بیان میں کیا ہے۔

مولانا نے کہا کہ اس وقت جہاں ایک طرف فلسطین کی سرزمین پر بموں کی شکل میں فضاؤں سے موت برس رہی ہے اور ارض فلسطین لہولہان ہے تو وہیں دوسری طرف ہماری بے حسی و بے فکری کے مظاہرے بھی بالکل جوں کے توں برقرار ہیں۔

مولانا نے کہا کہ اسرائیل کی بمباری اور فلسطینیوں کی جاں بازی کو دیکھ کر مسلمانوں کو جہاں سبق سیکھنے کی ضرورت تھی وہیں مسلمانوں نے ”نادان گرگئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا“کے مصداق اپنی پُر تعیش زندگیوں میں مست اپنی شادیوں و دیگر تقاریب میں مصروف رہ کر انسانیت کو مسمار کررہے ہیں۔

مولانا نے کہا کہ اس وقت سوشیل میڈیا پر غزہ کے مظلومین کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے کو چاہتا ہے تو وہیں شادیوں میں ہونے والی آتش بازی کو دیکھ کر اپنی قوم کی بے حسی و ملی مسئلہ میں لاپرواہی جگر کو پارہ پارہ کررہی ہے۔ مولانا نے کہا کہ ایسے وقت میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زبوں حالی کا جائزہ لیں،مظلومیت کا رونا رونے کے بجائے اس دلدل سے نکلنے کی راہیں تلاش کریں۔

مولانا نے کہا اس وقت امت مسلمہ کو فلسطینیوں اور غزہ کے مظلومین سے اظہارِ یگانگت کے لیے ہر وہ کام کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے لیے ممکن ہے اور ایسے نازک وقت میں مسلمان اپنے تفریحی پروگراموں کو اور ایسی مجالس کو ترک کریں جن سے بے حسی و بے فکری میں اضافہ ہوتا ہو۔

مولانا نے کہا کہ نکاح ایک سنت عمل ہے اس سنت عمل کی ادائیگی میں ویسے بھی فضول خرچی اور غیر شرعی حرکتوں سے اجتناب ضروری ہے خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں پر پورا عالم اسلام قبلہ اول کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت کمربستہ مجاہدین پر ہونے والے مظالم کی جانب متوجہ ہے ہمیں بھی ان فکروں کا حصہ بننے اور غیر ضروری بالخصوص غیر شرعی حرکتوں سے صد فیصد بچنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت مسلمانوں کو چاہیے کہ فلسطینی بھائیوں کی محبت میں یہ قربانی دیں کہ ان مصنوعات کا بائیکاٹ کریں جن کا تعلق اسرائیل سے ہے تاکہ اسرائیل کی معیشت پر فرق پڑے جو اپنی تجارت کا خاطر خواہ حصہ فلسطین کے خلاف خرچ کررہا ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *