شادی کے بعد اگر لڑکی پر ظلم وتشدد ہو ‘ مطالباتِ جہیز ہوں‘ گھریلو خادمہ سمجھا جارہا ہے‘ سسرال قیدِ بے زنجیر بن جائے تو علاحدگی ہی واحد حل رہ جاتا ہےاکثر لڑکی کے ماں باپ اس امید اور خام خیالی میں رہتے ہیں کہ لڑکے والوں کے برتاؤ میں بہتری ہوگی

[]

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ علاحدگی ‘ خلع یا طلاق ناپسندیدہ عمل ہیں۔
٭ طلاق ایک زہر ہے جو کبھی کبھی تریاق بن جاتا ہے۔
٭ لڑکی کا قابلِ علاج نسوانی مرض کیا علاحدگی کا باعث بن سکتا ہے؟
٭ شدید اختلافات کی صورت میں باعزت طریقہ سے بذریعۂ خلع علاحدگی بہتر ہوگی۔
مندرجہ بالا سرخیاں وہ حقیقی واقعات ہیں جو ہمارے علم میں موکلین کی جانب سے لائے گئے۔ کبھی اکثر لڑکے والوں کی جانب سے بیوی اور سسرالی عزیزوں کی بدسلوکی کی شکایت آتی ہے۔ اگر موازنہ کیا جائے تو مظلومین اکثر صورتوں میں لڑکی والے ہی ہوتے ہیں۔ لڑکی والوں کا بھی بعض صورتوں میں بہت ہی شدید ردِ عمل ہوتا ہے اور بات گالی گلوج سے آگے نکل کر مارپیٹ اور پولیس کیس تک چلی جاتی ہے اور دشمنی اور نفرت کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہتا ہے اور آخر کار مقدمات ‘ مطالباتِ نفقہ اور DVC مقدمات پر یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے اور بعد از خرابیٔ بسیار خاندان ایک شیشے کی صراحی کی طرح ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔
یہ بربادیاں کیوں ہورہی ہیں‘ ارمانوں سے سجائے خاندانوں کے خرمن کیوں اجڑرہے ہیں۔ کیا اس کی وجہ انا ہے یا پیسوں کی لالچ یا فریق مخالف کو نیچا دکھانے کی خوئے بد! دوسروں کو نیچا دکھانے والے یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ ہوسکتا ہے ۔ کسی تباہ کن جذبہ کے زیر اثر سب کچھ کرگزرنے کی عادت کیسے بھیانک حالات سامنے لاسکتی ہے ۔ کیا کسی نے سوچا؟
ٹیڑھی سیڑھی اور خطرناک شاہراہوں پر سائن بورڈ ز لگے ہوئے ہوتے ہیں جو غافل کار ڈرائیورس یا موٹر سائیکل رائڈرس کو خبردار کرتے ہیں کہ رکیئے ‘ لہٰذا ‘ احتیاط سے گاڑی چلایئے ۔ آگے خطرہ ہے۔ زندگی بھی ایک سفر ہے ‘ لہٰذا احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
لہٰذا شادی کے بعد لڑکے والوں اور لڑکی والوں کو بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے اور اپنی انا۔ ضد۔ ہٹ دھرمی ۔ عصبیت کو برفدان میں ڈال کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ابتدائی تین چار ماہ محبت و آشتی اور بقائے باہم کے اصول سے گزرجائیں تو آئندہ زندگی بھی اچھی گزرے گی۔ کیوں کہ یہی تجربہ ہے مشاہدہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سب سے غیر یکساں اگر کوئی چیز ہے جس کا زندگی سے تعلق ہے تو وہ ہے فطرتِ انسانی ! ایک انسان کی فطرت دوسرے سے نہیں ملتی۔ دو بھائیوں کی فکر و سوچ میں فرق رہتا ہے اور اسی طرح دونوں کے مزاجوں میں بھی جب ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہوئے دو بھائیوں کی فطرت ۔ عادت میں فرق رہ سکتا ہے تو یہ بات کیسے باور کی جاسکتی ہے کہ ہونے والی بیوی بھی ویسی ہی ہوگی جیسی کہ آپ چاہتے ہیں اور اگر وہ آپ کے معیار پر پوری نہ اترے‘ تو کیا اس کے ساتھ بدسلوکی جائز ہوگی؟ ہرگز نہیں۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرہ میں شادیوں کی تباہ کاریاں کیوں ہورہی ہیں اور خاندان کیوں برباد ہورہے ہیں۔ ہم ایک لڑکی کی داستان سنارہے ہیں۔ یہ داستان ظلم و ستم اور غیر انسانی برتاؤ کی ایک گھناؤنی مثال ہے۔ یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ وہ مظلوم لڑکی اپنے والدین کے ساتھ آئی اور اپنی داستان سنانے لگی۔ آفس میں بیٹھی ہوئی ایک خاتون موکلہ اس لڑکی کی داستان سن کر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پاسکیں۔ شائد ایک دو سال قبل بھی اس واقعہ کو قارئین کے علم میں لایا گیا ہے۔
ایک لڑکی کی شادی ایک مالدار گھرانے میں ہوئی۔ سسرال والوں کا تعلق کرنول سے تھا اور وہ حیدرآباد میں عرصہ دراز سے مقیم تھے۔ لڑکا باہر ملک میں ملازم تھا اور بہت بڑی تنخواہ کماتا تھا ۔ لڑکی کے والدین نے حسب حیثیت بہت سارا جہیز دیا لیکن سونے کے زیورات کا مطالبہ زیادہ تھا لہٰذا تیس تولے سونے کے زیورات دیئے گئے۔
سسرال لوگ صاحبِ حیثیت لوگ تھے ۔ شادی کے بعد لڑکی نے والدین سے اپنی ساس ۔ سسر اور نندوں کی شکایت کی اور کہا کہ وہ لوگ بہت ظالم ہیں۔ میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی لیکن لڑکی کے والد نے خاندانی عزت کا خیال رکھتے ہوئے خاموشی اختیار کی ۔ خاندان کے بزرگوں کے مشورے کے مطابق اسے کہا گیا کہ صبر سے کام لو ‘ بعد میں حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔ لڑکی نے اپنے شوہر کی بھی شکایت کی اور کہا کہ وہ اس کی بالکل پرواہ نہیں کرتا اور ہمیشہ ماں بہنوں کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کی شکایت تھی کہ اس سے خادماؤں کی طرح کام لیا جاتا ہے۔ واشنگ مشین میں تمام افرادِ خاندان کے کپڑے دھوتی ہے اوراستری بھی کرتی ہے۔ گھر کا کھانا پکاتی ہے تو کھانے میں مرچ کم ہونے پر گالیاں دی جاتی ہیں اور وہ بھی بھدی ‘ گندی ۔ یہ سید زادی تمام مظالم برداشت کرتی رہی۔ تین سال تک اولاد نہ ہوئی۔ اس کے بھی طعنے برداشت کرتی رہی۔ آخرِ کار حاملہ ہوئی‘ پورے دن مکمل ہوگئے۔ اب تک لڑکی کو کسی ڈاکٹر کو نہیں بتایا گیا۔ ایک دن ساس کا حکم ہوا کہ دوپہر کاکھانا جلدی پکا۔ مجبور و مظلوم لڑکی کہنے لگی امی مجھے میں پیٹ میں بہت درد ہورہا ہے ۔مجھے فوری دواخانہ لے چلو۔ ظالم ساس نے کہا پہلے کھانا پکا‘ شام میں لے کر جاؤں گی۔ ابھی سے کیوں مررہی ہے۔
لڑکی چکر کھا کر کچن میں گرگئی۔ کوئی دیکھنے والا نہیں اورنہ پوچھنے والا ۔ ایکدم سے ساس کی آواز آئی۔ کھانے لے کو جلدی آنا۔ دیر کئیکو کررئی۔ جب کھانے کی کیفیت دیکھنے ساس اور نندیں آئیں تو ایک منظر دیکھا جسے سن کر لوگ کانپ جائیں گے ‘ مجبور و بے بس لڑکی خون میں لت پت پڑی تھی۔ اس کی زچگی ہوچکی تھی۔ لڑکا تولد ہوا تھا۔ ادھر ساس کا لڑکی کی ماں کو ٹیلی فون ان الفاظ میں آیا۔ (تمہاری بیٹی بیٹا جنی۔ اسے آکو لے جاؤ)
اس لڑکی کی دردناک داستان سن کر سب سے پہلے اس کے سید زادے اور نام نہاد شرافت کے علمبردار والدین پر غصہ آیا۔ کیوں انہوںنے اپنی بیٹی کی بات نہیں سنی۔ کیوں اس کے خلاف ظلم برداشت کرتے رہے جبکہ روزِ اول سے ہی وہ اس پر روا ظلم و ستم کی فریاد کرتی رہی اور یہ شرافت کے مارے لوگ صرف عزت کی خاطر خاموش رہے ‘ گویا انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کرکے کوئی گناہ کیا ہو۔ ہمارا سادات گھرانہ ہے کہیں بدنامی نہ ہوجائے۔کیا آپ کی لڑکی کوئی گناہ کررہی تھی۔ کیوں اسے زندہ درگور کردیا۔ ان کے مطابق اس کی شادی کی وجہ لڑکے کا خاندان بھی سید تھا۔ بہت پڑھا ہوا تھا۔ ایم ٹیک۔ تھا اور اس کی تنخواہ دو لاکھ روپیہ تھی۔
اس کے بعد قانونی طور پر ان جاہلوں کی ایسی درگت بنائی گئی کہ وہ زندگی بھر یاد رکھیں گے۔ CCS کی ایک غیر مسلم انسپکٹر ‘مظلومی کی داستان سن کر غصہ سے لال پیلی ہوگئی۔ اس نے دو لیڈی کانسٹبلوں کو حکم دیا کہ ساس اور اس کی دو بیٹیوں کی ایسی درگت بناؤ کہ وہ یاد رکھیں گے۔ ان دِنوں دفعہ498-A تعزیرات ہند کے تحت کسی بھی کیس میں گرفتاری ہوجاتی تھی۔ ریمانڈ رپورٹ پڑھ کر مجسٹریٹ نے14 دنوں کا ریمانڈ دیا۔ آخرِ کار پچاس لاکھ روپیوں‘ زیورات کی واپسی اور خلع پر تصفیہ ہوا۔ بعد میں مقدمہ کو ہائیکورٹ کے حکم پر ختم کردیا گیا۔
یہ ایک ہی نہیں ایسے ہزاروں واقعات ہیں جو منظر ِعام پر نہیں آتے۔ اگر مذکورہ مظلوم لڑکی کی جائز شکایت کو روز اول ہی اہمیت دی جاتی اور فوری طور پر کوئی قانونی اقدام کیا جاتا تو شائد ایسی بربادی نہ ہوتی۔ اگر لڑکی کی شکایت حق بجانب ہو تو فوری طور پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اوراولین فرصت میں قانونی نوٹس جاری کرتے ہوئے خلع اور جہیز کے سامان بشمول زیورات کی واپسی اور ہرجانہ کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ آئندہ لڑکی کی ز۔دگی ایک ممکنہ بربادی سے محفوظ رہے۔
طلاق کبھی کبھی بہت ضروری ہوجاتی ہے۔ اس میں دونوں فریقین کی بہبود مضمر ہوتی ہے۔ گو کہ طلاق کو جائز کاموں میں بدترین قراردیا گیا ہے لیکن بعض صورتوں میں یہ ناگزیر ہوجاتی ہے۔ طلاق ایک زہر کے مانند ہے لیکن بعض اوقات یہ تریاق بن جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ زخم ناسور بن جائے اس کا علاج کرنا ضروری ہے چاہے بڑی سے بڑی سرجری ہی کیوں نہ ہو۔
اگر والدین یہ محسوس کریں کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں ان کی لڑکی کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے ‘ اسے وہ مقام نہیں مل رہا ہے جس کی وہ حقدار ہے اس کی ضروریات پوری نہیں ہورہی ہیں ‘ اس سے خادماؤں کی طرح کام لیا جائے اور سسرال اس کے لئے قیدِ بے زنجیر بن رہا ہے تو قانون دانوں کی پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعہ اس مسئلہ کے حل کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اگر دیر کی جائے تو بات بگڑجائے گی اور بگڑتی ہی رہے گی غمزدہ ماحول اورافسردگی اور مظلومیت کے عالم میں ایک دو اور بیٹے تولد ہوجائیں گے پھر اس کے بعد معاملہ بہت ہی سنگین شکل اختیار کرلے گا۔ اس مضمون سے ہرگز یہ مطلب اخذ نہ کیاجائے کہ طلاق کے حصول کی رائے دی جارہی ہے۔ کوئی لڑکی کیوں چاہے گی کہ اس کے کردار پر طلاق کا بدنما داغ لگ جائے۔ کونسے والدین یہ چاہیں گے کہ ان کی بیٹی طلاق لے کر گھر آبیٹھے۔ لیکن ظلم و ستم کی چکی میں پس جانے سے بہتر ہے کہ کوئی اقدام کیا جائے کہ لڑکی کی زندگی تباہ نہ ہوجائے۔ کئی صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں لڑکے کا کردار اور حقیقی چہرہ شادی کے بعد سامنے آتا ہے۔ اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ بدچلن ہے ۔ آوارہ ہے۔ اس کی آوارگی پر پردہ ڈالنے کے لئے اس کے والدین نے اس کو نکاح کا مقدس پیرہن پہنایا ہے۔
کسی کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ شرابی ہے اور PUBS جاتا ہے اور آوارہ و بدچلن لڑکیوں سے میل جول رکھتا ہے۔ اس کی عادتیں گندی ہیں اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ امراض خبیثہ سے متاثر ہو اور لڑکی کو بھی متاثر کردے۔ ایسی صورتیں پیش آئیں اور حقیقت سامنے آنے کے بعد کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہاں بھی خاندانی عزت کی خاطر لب کشائی نہ کی جائے تو بہت ہی بری بات ہوگی۔ایک معصوم زندگی کو خاندان کی عزت کی صلیب پر نہیں چڑھایا جاسکتا۔
لڑکی پر نسوانی امراض کا جھوٹا الزام
کبھی کبھی شادی کے بعد نسوانی امراض ہوجاتے ہیں۔ یہ امراض قابل علاج ہوتے ہیں لیکن ان امراض کا بہانہ لے کر علاحدگی کی باتیں ہوتی ہیں۔ لڑکی کوایک ایسے جرم کی سزا دی جاتی ہے جو اس نے کیا ہی نہیں۔ یہ بات ایک معصوم لڑکی کے لئے کتنی سوہانِ روح ہے۔ساس ناک چڑھاتے رہتی ہے اور لڑکی کی ماں کو طعنے دیتی رہتی ہے۔ لڑکی بے چاری کرے تو کیا کرے۔ کہتے ہیں جاؤ اپنی ماں کے گھر ۔ اپنا علاج کرواکر واپس آؤ ۔ کبھی کبھی دو تین سال تک اولاد نہ ہونے کا طعنہ دیتی ہے۔ طبی معائنہ کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ لڑکی میں کوئی نقص نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ لڑکے کا بھی Fertility ٹسٹ کرواؤ کہ کہیں اس کو Azoosperma کی بیماری تو نہیں۔ نہ لڑکا اس بات پر راضی ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے ماں باپ ۔ الٹا لڑکی کو موردِ الزام قراردیتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اگر ابتدائی دنوں میں یہ بات معلوم ہوجائے کہ فریق مخالف اس قابل نہیں کہ ان کے ساتھ رشتہ کو استوار رکھا جاسکے تو سب سے بہتر یہ بات ہوگی کہ جہاں تک ہوسکے علاحدگی کی کوشش کی جائے جس کا سلسلہ صرف ایک قانونی نوٹس سے شروع کیا جائے ۔ ہوسکتا ہے کہ ایک نوٹس ہی کافی ہو لیکن جانتے بوجھتے دیر کرنا لڑکی کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *