[]
نئی دہلی: ہندوستان نے جمعہ کو واضح کیا کہ کینیڈا کے سفارت کاروں کی تعداد کو محدود کرنے کا فیصلہ ہندوستان کے اندرونی معاملات میں ان کی مسلسل مداخلت کی وجہ سے ضروری ہوگیاتھا۔
اس معاملے پر کینیڈا کی وزارت خارجہ کی طرف سے دیے گئے ردعمل اور انداز پر اپنی ناخوشی کا اظہار کرنے کے علاوہ، ہندوستان نے یہ بھی واضح کیا کہ اس نے نئی دہلی میں کینیڈا کے ہائی کمیشن میں سفارت کاروں کی تعداد اوٹاوا میں واقع ہندوستانی ہائی کمیشن ہندوستانی ہائی کمیشن کے سفارت کاروں کے برابر رکھنے کی مانگ کی تھی اور بنگلورو، ممبئی اور چنڈی گڑھ میں واقع قونصل خانوں کے کام کو بند کرنے کناڈا کا فیصلہ یکطرفہ ہے۔
ذرائع کے مطابق کینیڈا نے اس حوالے سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اتنی ہی تعداد میں سفارت کاروں کو تعینات کرنے کے ہندوستان کے فیصلے سے تقریباً ایک ماہ قبل کینیڈا کو آگاہ کر دیا گیا تھا اور اس پر عمل درآمد کی آخری تاریخ 10 اکتوبر تھی۔
اس تاریخ کو 20 اکتوبر تک بڑھا دیا گیا تاکہ عمل درآمد کے فریم ورک، تفصیلات اور طریقہ کار کو حتمی شکل دی جا سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس عمل میں کینیڈین سفارت کاروں کی فہرست بھی تیار کی گئی جنہیں بنےرہنے کو کہا گیا تھا۔ کینیڈین فریق کے ساتھ بات چیت کے ذریعہ بین الاقوامی قانون میں فراہم کردہ سفارتی چھوٹ اور مراعات پر کام کیا جارہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سب کے باوجود کینیڈا کی جانب سے اسے ‘من مانی’ اور ‘راتوں رات’ فیصلے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش حقیقت میں غلط ہے۔
ذرائع نے زور دیا کہ اوٹاوا اور نئی دہلی میں ہمارے مشنز کی سفارتی نمائندگی میں برابری کی مانگ کی گئی ہے۔ اس کا بنگلورو، ممبئی اور چنڈی گڑھ میں کینیڈا کے قونصل خانوں میں کینیڈا کی سفارتی طاقت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا تھا۔
لیکن کینیڈا نے ہندوستان میں اپنے تین قونصل خانوں کے آپریشن کو بند کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کیا ہے جس کا سفارتی مساوات کے نفاذ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔