[]
ریاض: اسرائیل کا 5 رکنی وفد پہلے اعلانیہ دورے پر پہنچا جہاں دارالحکومت ریاض میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے اجلاس میں شرکت کی، جس سے باقاعدہ تعلقات قائم ہونے کا تاثر ابھر گیا ہے۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یونیسکو کے تاریخی ورثے اور تاریخی مقامات سے متعلق اجلاس میں شرکت کے لیے 5 رکنی وفد اتوار کو سعودی عرب پہنچ گیا تھا۔
انہوں نے دورے کی حساسیت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ ہم یہاں بہت خوش ہیں، یہ ایک اچھا پہلا قدم ہے۔اسرائیلی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہم یونیسکو اور سعودی حکام کے شکرگزار ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفد دبئی کے راستے اتوار کو سعودی عرب پہنچا تھا کیونکہ اسرائیل سے سعودی عرب کے لیے براہ راست پروازوں کا انتظام نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وفد کو اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافتی ادارے یونیسکو کے ذریعے سعودی عرب کا ویزہ ملا تھا۔وفد میں ایک سیکیورٹی عہدیدار بھی شامل تھا اور وفد نے پیر کو ریاض میں یونیسکو کے اجلاس میں شرکت کی اور اجلاس کے دوران ان کی ڈیسک پر اسرائیل کا نام لکھا ہوا تھا۔
دورے کے حوالے سے اسرائیلی عہدیدار نے بتایا کہ دورے بہت اچھا رہا اور وہ ہمارے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کر رہے ہیں۔
اجلاس میں سعودی عرب کے عہدیداروں کو اسرائیل کے نشانات بھی توجہ کے حامل رہے جہاں 50 سے زائد مقامات مقابلے میں شامل ہیں جو دنیا میں تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔
اجلاس کے دوران کام کرنے والے ایک نوجوان سعودی رضاکار سے اسرائیلی وفد کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ خدا کی طاقت ہے، مسئلہ ہم سے بڑا ہے اور ہم اس پر اعتراض نہیں کرسکتے ہیں۔
یونیسکو کے ایک سفارت کا نے کہا کہ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل اودرے ایزولے نے ریاض میں اسرائیل کی شرکت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یونیسکو کے عہدیدار نے کہا کہ یونیسکو کے مرکز میں اودرے ایزولے کی جانب سے خطے کی تمام ریاستوں کے درمیان شرائط پر مذاکرات کے لیے ہونے والی کئی برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔
اسرائیلی وفد کا دورہ بظاہر سیاسی اہمیت کا حامل نہیں ہے تاہم یہ دورے ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات قائم ہونے کا تاثر پایا جاتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ایک فلسطینی وفد نے بھی گزشتہ ہفتے ریاض کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے حوالے سے بات چیت کرنا تھا۔
دوطرفہ تعلقات کے ماہر اور تجزیہ عزیز الغاشیا نے کہا کہ درحقیقت یہ دورہ یونیسکو نے ترتیب دیا تھا لیکن سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے رکاوٹیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دورہ ہوسکتا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے پوری دنیا کے لیے دروازے کھولنے کا نتیجہ ہو، جس میں اسرائیل بھی شامل ہوگا اور نہ ہی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان دو طرفہ تعلقات کا نتیجہ ہے۔
سعودی عرب کے عہدیدار کا ماننا تھا کہ وہ کسی کو نہیں روک سکتے اگر کوئی مملکت کو ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت دنیا کے کاروبار اور سیاحت کا مرکز بنانا چاہے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیلی اس کو پہلے دورے کے طور پر تعبیر کریں گے جبکہ یہ حقیقت میں یونیسکو کا انتظام تھا اور یہ ان کی سفارتی صلاحیتیں یا سفارتی فتوحات کا مظہر نہیں تھا۔
رپورٹ کے مطابق انہوں نے اسرائیلی وفد کے دورے کا موازنہ رواں سیزن میں اسرائیلی ای اسپورٹس کھلاڑیوں کی گیمرز 8 فیسٹول سے کیا، جن کو ٹورنامنٹ کے عالمی منتظمین کی جانب سے تھرڈ پارٹی رابطے سے سعودی عرب آئے تھے۔