[]
میرا نام اشرف ہے۔ میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں رہتا ہوں۔میرا تعلق سفید فام اقلیت سے تھا جو اشرافیہ تھی۔ پہلے میرے صرف تین بھائی ہوا کرتے تھے، اب دنیا کے لاکھوں افراد میرے بھائی اور بہن ہیں۔ جب بھی میں خود کا تعارف کراتا ہوں تو میں خود کو نومسلم کہتا ہوں اور مرتے دم تک کہتا رہوں گا۔اسلام کی جانب میرا سفر بہت پہلے شروع ہوا ۔جب میں 23سال کا تھاتب میں نے سوچ لیا تھا کہ شراب پی کر اور ایک بری زندگی گزار کر میں زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکتا۔جب میں نے بری عادات چھوڑدیں اور شریف بن گیا تو میں سوچنے لگا کہ اس طرح اچھا بننے کافائدہ کیا ہے؟
میں ایک ایسے ماحول میں کام کرتا تھا جہاں، اگر آپ خوبصورت نہیں ہیں تو آپ میرے کام کے نہیں ہیں، والا معاملہ تھا۔دن کے اختتام پر میں دروازے پر کھڑا میرے ساتھ کام کرنے والی تمام لڑکیوں کو گڈبائے کہہ کر وداع کرتا۔وہاں ایک خاتون تھی جو ہمیشہ خوشبو میں گھری اور تازہ دم نظرآتی۔مجھ سے برداشت نہ ہوسکا ، میں نے اس سے سوال پوچھ ہی لیا کہ آخر کیوں دن کے اختتام پر تمام خواتین تھکی ماندی نظرآتی ہیں جبکہ تم اتنی تازہ دم نظرآتی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ یہ اس کے مذہب کی وجہ سے ہے؟
’’کیا تمہارا مذہب تمھیں فریش رہنے کے لیے کہتا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں، میرا مذہب بتاتا ہے کہ کس طرح صاف رہا جائے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
ـ’’تمہارا مذہب کہتا ہے کہ کس طرح ہاتھ اور منہ دھوئے جائیں؟میں نے حیرت سے کہا۔’’ہاں۔‘‘
’’یہ کون سا مذہب ہے؟‘‘
’’اسلام‘‘
تب میں نے طے کیا کہ مجھے اسلام کے بارے میں مزید جاننا چاہیے۔ مجھے سب سے پہلے جو کتاب ملی وہ احمد دیدات کا تقابل ِ ادیان پر لکھا ایک مقالہ تھا۔ اللہ ان پر اپنی رحمت نازل کرے۔ تثلیث (خدا، یسوع اور مقدس روح) پر یہ کتاب پڑھنے کے بعدمیں چند دن غوروفکر کرتا رہا۔میںایک پکا کیتھولک لڑکا تھا اور اپنی عمر کے اٹھارہ سال تک میں نے کیتھولک ازم کے بارے میں پڑھا تھا چنانچہ میرے ذہن میں کئی سوالات باقی تھے۔
چند دنوں بعد میں نے کتاب ایک مرتبہ اور پڑھی اور ایک خدا کے تصورپر مجھے اطمینا ن آنے لگا۔میں نے کلمہ شہادت سیکھنا شروع کیااور ایک سال بعد میں نے سوچا کہ اب قبول ِاسلام کا وقت آچکا ہے۔میں نے غسل کیا، اپنی جیب میںٹوپی رکھی اور قریبی مسجد کی جانب چل پڑا۔مسجد کے اردگرد آدھا گھنٹہ گھومنے کے بعد میں نے سوچا کہ اگر میں دیوار کے اطراف اس طرح گھومتا رہا تو میں کبھی مسلمان نہیں بن سکتا۔ میں مسجد میں داخل ہوگیا اور وہاں اپنے بھائیوں کے ایک گروپ کو بیٹھا ہوا پایا۔ ایک نے مجھ سے پوچھا کہ وہ میری کیا مددکرسکتا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ میں مسلمان بننا چاہتا ہوں۔اس نے مجھے ایک پتہ دیا اور کہا کہ مجھے وہاں جاکر مطالعہ کرنا ہوگا،میں نے کہا،’’ نہیں ، میں ابھی مسلمان بننا چاہتا ہوں۔‘‘اس نے مجھ سے پوچھا کیا مجھے کلمہ شہادت یاد ہے۔میں نے جواب دیا،’’ہاں‘‘۔
تب میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مسجد میں بیٹھا۔ میں نے اپنے ایمان کی گواہی دی ۔ اس کے بعد مجھ سے پوچھا گیا آیا میں نے کوئی نام منتخب کیاہے،میں نے کہا ’’محمد اشرف‘‘۔الحمدللہ ، اس دن سے میں نے ایک مسلمان ہوں۔اس دن سے میں مسلمانوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور مطالعہ کرنا شروع کیا۔دوسال بعد مجھے محسوس ہوا کہ اب مجھے شادی کرلینی چاہیے۔ میں نے اپنے ایک دوست کی بہن سے شادی کرلی۔حکومت کی نظر میں یہ شادی کرکے میں نے مندرجہ ذیل تین قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔
1۔ میں ایک سفید فام علاقہ میں رہ رہا تھا۔
2۔ میں صرف ایک سفید فام خاتون سے ہی شادی کرسکتا تھا۔
3۔میں صرف ایک سفید فام خاتون کے ساتھ ہی جنسی تعلق قائم کرسکتا تھا۔
میری جانب سے ان قوانین کی خلاف ورزی پر میں اور میری بیوی بہت متفکر تھے۔پھر بھی میرامانناتھا کہ جب تک اللہ میری شادی سے راضی ہے، دوسرے لوگ چاہے جو کچھ کرلیں ،اللہ میر ی حفاظت فرمائے گا۔
1994میںایک دن میں اپنے گھر میں اکیلابیٹھا تھا۔ دروازے پر کھٹکا ہوااور میں نے دروازہ کھولا۔ ان دنوں اپنی عادت کے مطابق میں پہلے آنے والوں کے جوتے چیک کرلیتا تھا۔ہاں، یہ پولیس والے کے جوتے تھے لیکن کیا یہ کوئی سفید فام تھایا سیا ہ فام؟ میں خوفزدہ ہوگیا،کیا میں اسے بالکونی سے نیچے دھکا دے دوں؟کیا میں اس پر دروازہ دے ماروں؟میں نے خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کی۔ اس نے کہا کہ اسے اطلاع ملی ہے کہ یہاں اس گھر میں ایک رنگ دار خاتون رہتی ہے۔ ’’نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔’’ یہاں کوئی رنگ دار خاتون نہیں رہتیں۔‘‘ اس نے اندرآنے کی اجازت مانگی۔ وہ ہمارے اپارٹمنٹ میں داخل ہوا ، دیوارپر اسلامی خطاطی دیکھی ، صوفہ پر بیٹھا اور لفافہ بازو میں رکھ دیا۔
میں نے مسلمان بننے کے بعد بھی اپنے خاندان سے تعلق باقی رکھا۔ جس وقت میری ماں نے میر ی پہلی اولاد ایک خوبصورت بچی کو دیکھا تو وہ کہنے لگی کہ میں پوری کوشش کروں گی کہ اس لڑکی کی شادی ایک سفید فام لڑکے سے ہو۔ میں نے ماں سے کہا کہ میری لڑکی کی شادی کسی اچھے مسلم لڑکے سے ہوگی۔ میری لڑکی نے بعد میں ایک گہری رنگت والے ہندوستانی لڑکے سے شادی کرلی اور اب میں اپنے ’’سنہری نواسہ ‘‘ الطاف کا نانا ہوں۔ اسلام مجھ پر پورامنطبق ہوتا تھا۔ میں اور میری بیوی نے خاندان بنایا تھا اور ہم جانتے تھے کہ ہمار ی اولاد کی تربیت اسلامی لحاظ سے ہونی چاہیے۔ میرے بچے اسلامی طورطریقوں پر بڑھے اور اپنے عقیدہ سے چمٹے رہے۔جس وقت اساتذہ جماعت میں بچوں کی نسلیت ریکارڈ کرتے تو میرے بچے خاموش رہتے اور جب ان سے ان کی نسل کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ جواب دیتے ،’’ مسلم‘‘۔ ٹیچراس وقت جھنجھلا اٹھتی جب وہ خود کو گورا نہیں کہتے اور اگر وہ نسل پر اصرار بھی کرتی تو بچے کہتے ،جو اسے اچھا لگے وہ ریکارڈ میں بھردے۔
ہاں ، میری زندگی میں مجھ سے ایک بڑی غلطی بھی ہوئی۔ میرے والد ایک پولیس والے تھے اور وہ کیتھولک چرچ میں موجود بدنظمی کو دیکھ کر کڑھتے رہتے ۔ انھوں نے نظم اور ڈسپلن کی تلاش میں دوسرے چرچوں کا دورہ بھی کیا لیکن انھیں مایوسی ہوئی۔ اس سے پہلے کہ میںانھیں اسلام کے بارے میں بتانے کی ہمت کرتا ،ان کا انتقال ہوگیا۔ مجھے یقین ہے کہ انھیں اسلام میں ضرور سکون ملتا جیسا کہ نمازمیں ہمیں فوجیوں کی طرح الرٹ ٹھہرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ نمازسے پہلے وضواور نماز میں کندھے سے کندھا ملا کرٹھہرنا اور سیدھی صف بنانا جیسی چیزیں ان کی فوجی طبیعت کو ضرور بھاتیں۔مجھے صرف یہ پتہ تھا کہ جس وقت ان کا انتقال ہوا وہ میرے اور میری بیوی کے مذہب کے انتخاب سے بڑے خوش تھے۔
میرے خاندان کو میری ماں کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ بعد میں وہ کینسر سے انتقال کرگئیں۔ اپنے آخر ی لمحات میں وہ خود کو مسلمان کہتی اور اس پر فخر کا اظہار کرتی۔ انھوں نے خود کو میری بیوی کے ایک لمبے اسلامی لباس میں دفن کرنے کی خواہش کی تھی۔میرے دوسرے بھائی مسلمان نہیں تھے لیکن انھیں بھی اس بات پر فخرتھا کہ ان کا بڑابھائی مسلمان ہے۔ان میں سے ایک چند ماہ میرے پاس ٹھہرااور اس نے بہت سی اسلامی عادات اپنالیں۔
مختصراََ ، میں 25سال پہلے اسلام قبول کرکے ایک نومسلم بن گیا ۔ایک مسلم خاتون میرے مسلمان ہونے کی وجہ بنی تھی۔ لیکن میں جنوبی افریقہ میں مسلمانوں کی فرقہ واریت سے خوش نہیںتھا۔ اجتماعات میں میں افریقی بھائیوں کو تلاش کرتا اور دیگرمسلمان بھائیوں کو مجھ سے مایوسی ہوتی جب میں ان سے کہتا کہ میں بس ایک مسلمان ہوں اور میراکوئی مخصوص فرقہ نہیں ہے۔ اسلام صرف ہندوستانیوں ، عربوں، سیاہ فاموں یا کسی اور کی جائیداد نہیں ہے۔ جو لوگ مسلمانوں میں اس طرح کی ذاتیں اور فرقے پیداکررہے ہیں وہ ایک ایسے براعظم پر اسلام کی ترقی کی راہ میں حائل ہورہے ہیں جسے اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
٭٭٭