باغی ایم ایل ایز کا سپریم کورٹ میں بیان’’ہم نے کانگریس میں شمولیت اختیار نہیں کی‘‘

حیدرآباد: تلنگانہ میں سیاسی بحران اس وقت ایک نیا موڑ اختیار کر گیا جب بی آر ایس (بھارت راشٹرا سمیتی) سے تعلق رکھنے والے ان ایم ایل ایز، جن پر کانگریس میں شمولیت کا الزام تھا نے سپریم کورٹ میں اپنے حلف نامے داخل کر دئے۔

ان حلف ناموں میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی سے صرف خیر سگالی ملاقات کی تھی۔

باغی ایم ایل ایز نے میڈیا پر الزام عائد کیا کہ ان کی وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی سے ہونے والی ملاقات کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا اور اسے پارٹی بدلنے کے مترادف بنا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ محض رسمی ملاقات کے لیے گئے تھے اور اس کا کسی بھی طرح کانگریس میں شمولیت سے تعلق نہیں تھا۔ ان ایم ایل ایز نے اب قانونی طور پر سپریم کورٹ میں اپنا موقف واضح کرنے کے لیے حلف نامے داخل کر دئے ہیں۔

ان ایم ایل ایز کے خلاف دائر نااہلی کی درخواست سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔ اگر عدالت ان کے خلاف فیصلہ سناتی ہے تو ان باغی ایم ایل ایز کو بڑا دھکا لگ سکتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ عدالت کے سامنے دی گئی صفائی کو مکمل طور پر تسلیم کرانا ان کے لیے آسان نہیں ہوگا۔

اطلاعات کے مطابق کم از کم تین ایم ایل ایز نے اب تک اپنے حلف نامے عدالت میں جمع کرا دئے ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ اب بھی بی آر ایس کے رکن ہیں اور کانگریس میں شامل ہونے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔

سب سے زیادہ توجہ کا مرکز پٹن چیرو کے ایم ایل اے گُڈیم مہپال ریڈی کا حلف نامہ بنا ہوا ہے، جو پہلے ان افراد میں شامل سمجھے جا رہے تھے جنہوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ لیکن اب انہوں نے اپنے حلف نامے میں واضح طور پر کہا ہے کہ وہ بی آر ایس کا ہی حصہ ہیں اور کانگریس میں شامل ہونے کی باتیں محض قیاس آرائیاں ہیں۔

رپورٹس کے مطابق محبوب نگر اور رنگا ریڈی اضلاع سے تعلق رکھنے والے دیگر ایم ایل ایز نے بھی سپریم کورٹ میں اسی طرح کے حلف نامے داخل کر دئے ہیں، جس میں انہوں نے کانگریس سے کسی قسم کے تعلق کی تردید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ بدستور بی آر ایس کے رکن ہیں۔

ان غیر متوقع حلف ناموں کے بعد اب تمام نظریں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں کہ عدالت ان دعوؤں کو کس نظر سے دیکھتی ہے اور آیا یہ ایم ایل ایز نااہلی کی کارروائی سے بچ پائیں گے یا نہیں۔ عدالت کا فیصلہ تلنگانہ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *