مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: 15 رمضان کو سبط رسول، حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت باسعادت کا دن ہے۔
انسان کی اصل حقیقت اس کی روح ہے، جس کے بغیر انسان کا وجود ممکن نہیں۔ قرآن بھی انسان کو روح اور جسم کا مجموعہ قرار دیتا ہے۔ انسان کی ترقی کے لیے جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں پر توجہ ضروری ہے۔ کچھ صفات اور خصلتیں انسان کو ارتقاء بخشنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان صفات میں سے ایک صبر ہے جو انسان کو کمال کے راستے سے ہٹانے والے عوامل کے خلاف مزاحمت پر آمادہ کرتا ہے۔ حقیقی انسان وہی ہے جو الہی اصولوں کو سمجھے، ان پر عمل کرے، اور اپنی تکمیل کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے خلاف صبر و استقامت دکھائے۔
امام حسن علیہ السلام کی مظلومیت
اگر ہم اہل بیت علیہم السلام میں سے کسی شخصیت کو سب سے زیادہ مظلوم قرار دیں تو امام حسن علیہ السلام یقینا ان میں سے ایک ہیں۔ ان کی مظلومیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے اپنے عقیدت مندوں کے درمیان ان کے بارے میں کم معرفتی ہے۔ ان کے شیعہ ان کی زندگی اور حکمت عملی سے اتنی واقفیت نہیں رکھتے جتنی رکھنی چاہیے۔
تاریخ کے اوراق میں حضرت امام حسن علیہ السلام کے دور کی سیاسی صورتحال، ان کے اقدامات اور معاویہ کے ساتھ صلح کے اسباب و اثرات پر وہ توجہ نہیں دی گئی جو دینی چاہیے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ چودہ صدیوں کے بعد بھی دشمنوں کی طرف سے حضرت امام حسن علیہ السلام پر لگائے گئے الزامات کے جوابات تلاش کرنے کی کوششیں ناکافی رہی ہیں۔
حضرت امام حسن علیہ السلام کی مدبرانہ قیادت اور صلح نے اسلامی معاشرے میں ایک نئی راہ متعین کی، جو آگے چل کر کربلا کی تحریک کے لیے بنیاد بنی اور یزیدی ظلم و جبر کے خلاف قیام کا راستہ ہموار کیا۔
حضرت امام حسن علیہ السلام کی صلح: اسلام کی بقا کی ضمانت
یقیناً اگر حضرت امام حسن علیہ السلام کی صلح نہ ہوتی تو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے لیے ماحول سازگار نہ ہوتا۔ بنی امیہ اسلام کو اتنا مسخ کر دیتے اور اہل بیت علیہم السلام کو ایسا غلط انداز میں پیش کرتے کہ آج ہم حقیقی اسلام اور اہل بیت کی شناخت سے محروم ہوتے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اسلام اور تشیع کی بقا حضرت امام حسن علیہ السلام کی حکمت، تدبیر اور صبر کی مرہون منت ہے۔
یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ تمام ائمہ اطہار علیہم السلام “نور واحد” ہیں اور ہر امام نے اپنے زمانے مخصوص حالات کے مطابق طرز عمل اپنایا۔ ان کا فرق کسی اختلافِ رائے یا ذاتی اجتہاد کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ ہر امام نے اپنے وقت کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کی حفاظت اور اس کے فروغ کے لیے بہترین طریقہ اپنایا۔ چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے خلفاء کے ساتھ مخصوص حکمت عملی اپنائی، اسی طرح حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی مختلف راہیں بھی درحقیقت ایک ہی ہدف کی تکمیل تھیں۔
مسلمانوں کے مختلف گروہ اور ان کا کردار
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں مسلمان یکساں ایمان اور درجہ کے حامل نہیں تھے، بلکہ انہیں تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1. مخلص اور باایمان مسلمان
یہ وہ افراد تھے جو خلوص دل سے اسلام قبول کر چکے تھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہر حکم پر عمل کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ اگر انہیں جنگ کے لیے وسائل نہ ملتے تو غم سے آنکھوں میں آنسو بھر آتے، جیسا کہ قرآن میں آیا: “اور ان لوگوں پر بھی کوئی الزام نہیں جو تمہارے پاس آتے ہیں کہ انہیں (جہاد کے لیے) سواری دو، تم جواب دیتے ہو کہ میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے، تو وہ غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے واپس جاتے ہیں، اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں کہ وہ جہاد میں شرکت کے لیے کچھ نہیں پاتے۔” (التوبہ: 92)
2. منافقین
یہ وہ لوگ تھے جو اسلام کے دشمن تھے، لیکن اپنے مفادات کی خاطر مسلمانوں میں شامل ہو گئے تھے۔ جنگ کے موقع پر بھی وہ مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کرتے تھے اور مدینہ واپس آ کر مہاجرین کو نکالنے کی دھمکی دیتے تھے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا:
“اگر ہم مدینہ واپس لوٹے تو جو لوگ عزت والے ہیں، وہ ان ذلیلوں کو ضرور نکال باہر کریں گے۔” (المنافقون: 8)
3. کمزور ایمان والے مسلمان
یہ وہ طبقہ تھا جو اللہ اور اس کے دین پر یقین رکھتا تھا، لیکن اس کے لیے اپنے مفادات کو زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ یہ لوگ مصلحت پسند تھے، جنگ میں محفوظ طریقے سے شامل ہوتے تھے اور قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ حتی کہ نماز بھی بوجھ سمجھ کر پڑھتے، جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا:
“وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر سستی کے ساتھ، اور وہ (اللہ کی راہ میں) خرچ بھی نہیں کرتے مگر ناگواری کے ساتھ۔” (التوبہ: 54)
زمینی حقائق اور حضرت امام حسن علیہ السلام کا فیصلہ
یہی تین قسم کے لوگ حضرت امام حسن علیہ السلام کے دور میں بھی موجود تھے۔ ان کے ساتھیوں میں منافقین، بزدل اور سازشی عناصر شامل تھے جو اسلام کی حقیقی تصویر کو بگاڑ رہے تھے۔ ان حالات میں، اگر حضرت امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو بنی امیہ کے پاس اہل بیت علیہم السلام کے خلاف پروپیگنڈا کا مکمل موقع ہوتا، اور شاید اسلام اپنی حقیقی صورت میں باقی نہ رہتا۔
صلح کے ذریعے حضرت امام حسن علیہ السلام نے ایک ایسی حکمت عملی اپنائی جس نے نہ صرف اہل بیت علیہم السلام کو تحفظ فراہم کیا بلکہ بعد میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کی راہ ہموار کی۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ کربلا کی تحریک، صلح امام حسن علیہ السلام کے بغیر ممکن نہ تھی۔
الغرض حضرت امام حسن علیہ السلام کی تدبیر اور صبر نے اسلام کی اصل روح کو محفوظ رکھا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی قربانی کے لیے ایک مضبوط فکری اور عملی بنیاد فراہم کی۔ اگر حضرت امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو اسلام کی حقیقی تعلیمات دب جاتیں اور ہمیں حقیقی اسلام کی شناخت تک نہ ملتی۔ تشیع اور اسلام کی بقا حضرت امام حسن علیہ السلام کی حکمت، بصیرت اور صبر کے سبب ممکن ہوئی۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے کو ایک بڑے امتحان کا سامنا ہوا اور مسلمانوں میں دو بنیادی نظریے پیدا ہوئے کہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد قیادت کا معیار کیا ہونا چاہیے؟
ایک گروہ کا عقیدہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ دنیا میں انسانوں کو ہدایت، سعادت اور خدا کے قرب تک پہنچانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ان کے نزدیک اسلامی حکومت بھی اسی مقصد کے لیے ایک ذریعہ تھی، نہ کہ کوئی دنیاوی بادشاہت۔
یہی وجہ ہے کہ وہ خلافت کو ایک الہی منصب سمجھتے تھے، جو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم سے مقرر ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اسی شخصیت کو خلیفہ مانتے تھے جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں اپنے ہاتھوں سے بلند کر کے کہا تھا: “من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ” (جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی بھی مولا ہیں)۔
یہی وہ لوگ تھے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زندگی بھر کے فرامین کو یاد رکھتے تھے کہ انہوں نے مختلف مواقع پر حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ ان لوگوں میں سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد اور عمار جیسے عظیم صحابہ شامل تھے۔ ان کے نزدیک خلافت، حکومت نہیں بلکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت تھی جو کہ دین کی حفاظت، روحانی و اخلاقی تربیت اور اللہ کی بندگی کے فروغ کے لیے تھی۔
دوسرے گروہ کا ماننا تھا کہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور اب معاشرے کے لیے ایک حکمران درکار ہے جو حکومتی معاملات کو سنبھالے، تنازعات حل کرے اور لوگوں کے دنیاوی مفادات کو پورا کرے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک خلافت محض ایک سیاسی منصب تھا اور وہ اسے “ریاستِ عامہ” (Public Leadership) کا نام دیتے تھے۔ ان کے لیے دین سے زیادہ اہم حکومت تھی۔
اس مسئلے پر مسلمان تین گروہوں میں بٹ گئے:
1. وہ اقلیت جو خلافت کو پیغمبر اکرمؐ کی نیابت سمجھتی تھی اور صرف اسی شخص کو خلیفہ مانتی تھی جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقرر کیا تھا۔
2. منافقین اور مخالفین جو پہلے بھی اسلام کے دشمن تھے اور اب بھی اپنے مفادات کی خاطر خلافت کے معاملے میں مداخلت کر رہے تھے۔
3. عام لوگ جو دین کو صرف وہاں تک قبول کرتے تھے جہاں تک وہ ان کے مفادات سے ٹکراتا نہ ہو۔ وہ اپنے قبیلے کے سرداروں اور قوم کے بڑے لوگوں کی پیروی کرتے تھے، بغیر اس کے کہ حقیقت کو تلاش کریں۔
یہی تین گروہ اسلامی تاریخ میں بار بار ابھر کر سامنے آئے اور انہی نظریاتی اختلافات کی وجہ سے آگے چل کر کربلا کا واقعہ بھی پیش آیا۔ یہ اختلاف بعد میں کئی تاریخی واقعات، جنگوں، مظالم اور قربانیوں کی وجہ بنا۔ تاہم، اگر ہم تاریخ کو غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اسلام کی حقیقی بقا، پیغمبر اکرمؐ کے مقرر کردہ راستے پر چلنے میں ہی تھی، نہ کہ اکثریت کی پیروی میں۔