سنبھل فرقہ وارانہ تشدد میں گرفتار فرحانہ 87 دن جیل میں رہنے کے بعد بے قصور ثابت ہوئیں

اتر پردیش کے سنبھل میں 24 نومبر 2024 کو جامع مسجد کے سروے کو لے کر ہونے والے تشدد میں چار افراد گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے، جبکہ 25 سے زیادہ پولیس اور انتظامیہ کے اہلکار زخمی ہوئے۔

 

پولیس پر پتھراؤ کے الزام میں 45 سالہ فرحانہ کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ 87 دن جیل میں گزارنے کے بعد وہ آخر کار گھر واپس آ گئی ہیں، کیونکہ پولیس کی تحقیقات میں انہیں بے قصور پایا گیا۔

 

فرحانہ کا نام ان کی پڑوسن زکرا نے اپنی بہن مریم کو بچانے کے لیے جھوٹے طور پر معاملے میں جوڑ دیا تھا۔ اس معاملے میں ان کے بے قصور ثابت ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کا 120 کلو وزن تھا، جس کی وجہ سے وہ چھت پر چڑھنے کے قابل نہیں تھیں۔ پولیس نے واقعے کی گہرائی سے جانچ کی،

 

کئی بار سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی، اور گرفتار شدہ خواتین کے بیانات درج کیے۔ اس کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ پتھراؤ کرنے والی عورت فرحانہ نہیں بلکہ ان کی پڑوسن زکرا اور مریم تھیں۔

 

تشدد کے بعد 10 سیکنڈ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں ایک خاتون پولیس پر پتھراؤ کر رہی تھی، جبکہ اس کے برابر کھڑی دوسری خاتون ایسا نہیں کر رہی تھی

 

۔ پولیس نے ویڈیو کے مقام کی شناخت ہندوپورا کھیڑا کے طور پر کی اور 26 نومبر 2024 کو 45 سالہ فرحانہ کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ ان پر فساد پھیلانے اور پولیس پر حملہ کرنے جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ بعد میں ان کی پڑوسن زکرا کو بھی گرفتار کیا گیا، جس نے فرحانہ کے خلاف جھوٹا بیان دے دیا تھا۔

 

فرحانہ کے وکیل ذکی انور نے معاملے کی دوبارہ جانچ کے لیے پولیس کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کیا۔ ڈی آئی جی کے حکم پر یہ کیس دوبارہ کھولا گیا اور دو ماہ کی تفصیلی تفتیش کے بعد پولیس نے پایا کہ پتھراؤ کرنے والی خواتین زکرا اور مریم تھیں، نہ کہ فرحانہ۔

 

اس کے بعد  عدالت نے فرحانہ کو بری کرنے کا حکم دے دیا اور وہ جیل سے رہا ہو گئیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *