تلنگانہ بھون میں یوم خواتین تقریب – رکن کونسل کویتا کا خطاب

خواتین تحفظات پر عدم عمل آوری باعث تشویش

مردم شماری کے نام پر قانون کے نفاذ سے مرکز کا گریز

خواتین کو ماہانہ 2500 روپئے مالی امداد کا وعدہ کانگریس کو یاد دلاتے رہیں گے

آنگن واڑی اور آشا ورکرس کی تنخواہوں میں اضافہ میں حکومت ناکام

خواتین کو خود مکتفی بنانے کے لئے جامع اور واضح منصوبہ پیش کیا جائے

خواتین متحدہ طور پر اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کریں

خواتین کو دوسرے درجہ کے شہری کے طور پر دیکھنے کا رجحان ختم ہونا ضروری

تلنگانہ بھون میں یوم خواتین تقریب۔کے کویتا کی فکر انگیز تقریر

 

عالمی یوم خواتین کے موقع پر تلنگانہ بھون میں ایک پر اثر تقریب کا انعقادعمل میں آیا۔ جس میں رکن قانون ساز کونسل بی آر ایس کلواکنٹلہ کویتا نے بطورِ مہمان خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کے کویتا نے خواتین کے حقوق، سیاست میں ان کی حصہ داری اور خواتین ریزرویشن قانون پر عدم عمل آوری پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔

 

کویتا نے کہا کہ خواتین ریزرویشن قانون کو مردم شماری سے جوڑ کر مرکز اب تک اس پر عمل درآمد سے گریز کر رہا ہے۔ قانون پر عمل آوری میں تاخیر کی وجہ سے مہاراشٹرا، دہلی، ہریانہ جیسی ریاستوں میں حالیہ انتخابات کے دوران خواتین کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب مردم شماری کی اتنی اہمیت ہے تو بجٹ میں اس کے لئے فنڈس کیوں مختص نہیں کئے گئے؟ اگر فوری طور پر مردم شماری مکمل کی جاتی ہے تو بہار اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں زیادہ تعداد میں خواتین منتخب ہو سکتی ہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ تلنگانہ میں کانگریس حکومت نے ہر خاتون کو ماہانہ 2500 روپئے دینے کا وعدہ کیا تھا تاہم آج تک اس وعدہ پر عمل نہیں کیا گیا ہے ۔جب تک یہ وعدہ پورا نہیں کیا جاتا ہم کانگریس کو یاد دلاتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح خواتین تنظیموں کے ذریعہ کرایہ پر حاصل کردہ بسوں کے سلسلے میں بھی آر ٹی سی کو وضاحت کرنی چاہئے کہ آیا وہ وقت پر کرایہ ادا کر رہا ہے یا نہیں

 

۔ کویتا نے کہا کہ آنگن واڑی اور آشا ورکرس کی تنخواہوں میں اضافہ میں بھی حکومت ناکام ہو چکی ہے۔بی آر ایس لیڈر نے مطالبہ کیا کہ حکومت خواتین کو مالی طور پر خود مکتفی بنانے کے لئے ایک جامع اور واضح منصوبہ پیش کرے۔

 

انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے اپنے دور حکومت میں خواتین کی بھلائی کو اولین ترجیح دی تھی۔ خواتین کی ترقی اور بہبود کےلئے متعدد فلاحی اسکیمیں متعارف کی تھیں لیکن موجودہ حکومت ان اسکیموں کو ختم کر رہی ہے

 

۔ جو کہ باعث تشویش ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کہ کیرالا کی طرح تلنگانہ کے نصابی کتب میں بھی صنفی مساوات کو فروغ دینے والی تصاویر شائع کی جانی چاہئیں۔ کویتا نے سماجی ترقی میں خواتین کے کردار کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں خواتین کو مساوی حقوق، عزت اور فیصلہ سازی میں اختیار حاصل ہونا چاہئےتب ہی حقیقی معنوں میں خواتین کی خود مختاری ممکن ہو سکے گی۔ انہوں نے چٹیالہ ایلمّاں اور رانی ردرما دیوی جیسی عظیم خواتین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ کی سرزمین نے ہمیشہ بہادر خواتین کو جنم دیا ہے،

 

جو باعثِ فخر ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو متحد ہو کر اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ خواتین کو گھروں میں دوسرے درجے کے شہری کے طور پر دیکھنے کا رجحان ختم ہونا چاہئے۔ کویتا نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں 40 فیصد خواتین ملازمت پیشہ ہیں جبکہ بھارت میں یہ شرح صرف 17 فیصد ہے۔ اگر ملک میں 50 فیصد خواتین ملازمتیں حاصل کرلیں تو ہندوستان کی جی ڈی پی میں 5 لاکھ کروڑ روپئے کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

 

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں خواتین کے لئے سازگار ماحول موجود ہے؟انہوں نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ خواتین نے زیرِ زمین کانوں میں کام کرنے سے لے کر خلاءمیں جانے تک ہر شعبہ حیات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے لیکن اب بھی انہیں بے شمار رکاوٹوں کا سامنا ہےجنہیں دور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *