[]
مہر خبررساں ایجنسی نے انڈیپینڈنٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان کے نگران وزیر اعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیار تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گئے تو یہ صورتحال پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہوگی۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا “یہ ایمونیشن کہ جس میں نائٹ ویژن چشموں سے لے کر تھرمل سلامینڈر تک وسیع پیمانے پر فوجی ہتھیار شامل ہیں، اسلام آباد کے لیے ایک نیا چیلنج بن گیا ہے۔کیونکہ ان ہتھیاروں تک رسائی نے پاکستانی طالبان کی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔
پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات گذشتہ چند مہینوں سے اتار چڑھاو کا شکار ہیں۔ گذشتہ ماہ پاکستانی فوج کے کمانڈر نے افغانستان میں طالبان گروپ کو موثر جواب دینے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
پاکستانی فوج نے افغان طالبان پر سرحد پار حملوں کے ذمہ دار عسکریت پسندوں اور مسلح گروہوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتے ہوئے افغان طالبان سے پاکستانی اہداف پر بمباری کرنے والے مشتبہ ارکان کی گرفتاری کے لیے موثر کارروائی کا مطالبہ کیا۔
پاکستانی فوج نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ “اس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں اور یہ کہ اگر افغانستان میں طالبان حکومت کچھ نہیں کرتی ہے تو “اسے پاکستانی سیکورٹی فورسز کی جانب سے موثر جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
پاکستانی فوج کے بیان میں مزید کہا گیا: “پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں افغان شہریوں کی شرکت ایک اور اہم تشویش ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔” پاکستانی فوج اور اس کے چیف جنرل عاصم منیر کی جانب سے یہ سخت انتباہات افغانستان کی سرحد سے متصل جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں پاکستانی فوجیوں پر دو عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد جاری کیے گئے تھے۔
پاک فوج نے جوابی فائرنگ کر کے سات حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔ جب کہ پاک آرمی چیف نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک اجلاس کے دوران شہید ہونے والے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو افغانستان میں پاکستانی طالبان کے پاس سیکیورٹی وسائل اور کارروائی کی آزادی پر تشویش ہے۔
اس سے قبل، پاکستانی وزیر خارجہ نے پاکستانی طالبان کے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے، “سرحد پار دہشت گردی کے خلاف براہ راست کارروائی” کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک افغان طالبان سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ملک سرحد پار سے حملوں کو برداشت نہیں کرے گا اور ہم ان تنظیموں کے خلاف براہ راست کارروائی کرنے کا اپنا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی افغانستان میں طالبان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔ ہم طالبان کو نظر انداز نہیں کر سکتے، وہ حقائق کا حصہ ہیں۔ لیکن ہماری بات چیت، خاص طور پر پاکستانی طالبان کے معاملے اور اس گروپ سے ہماری توقعات کے بارے میں، شاید ہم دوبارہ غور کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم تعامل کو مکمل طور پر ترک نہیں کر سکتے۔ بلال بھٹو زرداری نے اس بات کی طرف اشارہ کعتے ہوئے کہ پاکستان نے پشاور میں ملٹری اسکول پر حملے کے بعد شروع ہونے والے آپریشن میں اپنے علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا،کہا: ہم نے بھاری قیمت ادا کی۔ تقریباً 80 ہزار شہری اور فوجی شہید یا زخمی ہوئے ہیں اور اس سے ملک کو 120 بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا ہے۔
بلاول زرداری نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں نے اپنے لیے “محفوظ پناہ گاہیں” تلاش کر لی ہیں اور پاکستانی فوجیوں اور شہریوں پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
انہوں نے افغانستان میں طالبان حکومت سے کہا کہ وہ سرحد پار سے حملوں کو روکے اور پاکستانی طالبان کو قائل کرے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو تباہ کرنے اور ان کے مالی وسائل کو منقطع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ان حملوں کے مرتکب عناصر اور سہولت کاروں کے خلاف بھرپور کاروائی کا عندیہ ظاہر کیا۔