رام ناتھ کووند نے جون میں ہی ’’ون نیشن ون الیکشن‘‘ پر کام شروع کردیا تھا

[]

ممبئی: پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے 2 جون کو افتتاح کے چار دن بعد سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کے پاس دو مہمان آئے تھے۔ وہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے پرنسپل سکریٹری ڈاکٹر پی کے مشرا تھے۔

اس ملاقات نے بظاہر کووند کے زیرنگرانی ’’ون نیشن ون الیکشن‘‘ پالیسی کی تیاری اور اس پر بحث کے دروازے کھولنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سب کرناٹک انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد شروع ہوا جس میں بی جے پی کو واقعی بے حد نقصان پہنچا تھا جس کے بعد پارٹی 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں اپنی کامیابی پر تشویش میں مبتلا ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ ون نیشن ون الیکشن پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اپنے امکانات کو بڑھانے پر کام اچانک شروع کردیا گیا۔

لیکن رام ناتھ کووند ہی کیوں؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق صدر لو پروفائل شخصیت کے حامل ہیں مگر ان کے پاس پیچیدہ قانونی معاملات کو نمٹانے کی صلاحیت ہے۔ اس کے علاوہ وہ مودی کے قابل اعتماد آدمی ہیں۔  

ذرائع نے کہا کہ مودی نے خاموشی سے اپنی پارٹی کے قابل اعتماد رفقاء سے کہا کہ وہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات کے لئے میدان تیار کریں تاکہ 2024 کے انتخابات سے قبل اپوزیشن کو مزید کمزور کیا جاسکے جو انڈیا اتحاد کی تشکیل کے بعد اپنی ساکھ قائم کرنے میں تیزی سے کامیاب ہورہا ہے۔

گذرے جمعہ کو رام ناتھ کووند کو باضابطہ طور پر ’’ون نیشن ون الیکشن‘‘ پینل کا سربراہ نامزد کیا گیا۔ اگلے دن پینل کے اراکین کے ناموں کا بھی اعلان کردیا گیا۔

اس کے بعد اتوار کو مرکزی وزارت قانون کے عہدیداروں نے پینل کی تیاری کے کام کے لئے رام ناتھ کووند سے بظاہر ملاقات کی۔ لیکن یہ تیاری کا کام وہی ہے جو سابق صدر 2 جون سے کرتے آرہے ہیں۔ مطلب یہ ملاقات دکھاوا تھی۔

اس کی سوشل میڈیا ٹائم لائن پر ایک سرسری نظر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ رام ناتھ کووند نے پچھلے تین مہینوں میں کم از کم 10 گورنروں سے ملاقات کرتے ہوئے میدان کیسے تیار کیا حالانکہ ریٹائرڈ صدور کبھی اتنے مصروف نہیں ہوتے۔

وہ عام طور پر زندگی کی آخری شاموں میں غروب آفتاب کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں یا پھر ایک دو کتابیں لکھتے ہیں یا اپنی سوانح حیات تحریر کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، کووند نے ملک کی مختلف ریاستوں کے راج بھونوں کے دورے شروع کردیئے اور گورنروں و پارٹی لیڈروں نے ان کی میزبانی کی۔

9 جون اور 29 اگست کے درمیان انہوں نے پارٹی کے سینئر لیڈروں اور آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے علاوہ کم از کم 10 گورنرز/ایڈمنسٹریٹرز سے ملاقات کی، جن میں سے کچھ نے ایک سے زیادہ مرتبہ بھی ملاقات کی۔ (نیچے ٹائم لائن دیکھئے)۔

حکومت کی جانب سے پینل کی تقرری کو باقاعدہ بنانے کے ساتھ ہی انہوں نے ایک ساتھ انتخابات کے لئے اپنی تجاویز کو پختہ بنانے پر کام بھی شروع کر دیا ہے۔

ان کی رپورٹ 18 سے 22 ستمبر تک پارلیمنٹ کے پانچ روزہ خصوصی اجلاس کے دوران بھی پیش کی جا سکتی ہے۔

ان سب کے پیچھے سوچ یہ ہے کہ جن اسمبلیوں کی میعاد 2025 کے آس پاس ختم ہو رہی ہے (جیسے مہاراشٹر، مغربی بنگال) کو تحلیل کر دیا جائے گا جبکہ حال ہی میں جن ریاستوں میں انتخابات ہوئے ہیں (جیسے کرناٹک اور ہماچل پردیش) ان کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی جائے گی۔ ان اسمبلیوں کے انتخابات 2029 کے لوک سبھا انتخابات کے ساتھ ہوسکتے ہیں۔

پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کا ایک ساتھ انعقاد اپوزیشن بلاک، انڈیا کو انتشار میں ڈال سکتا ہے اور یہی ہم چاہتے ہیں۔

مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی کو کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اسمبلی اور لوک سبھا دونوں انتخابات میں اتحاد بنانا مشکل ہوگا کیونکہ ہر پارٹی پہلے اپنے مقامی مفادات کا تحفظ کرنا چاہے گی۔ اسی طرح کے مسائل عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان دہلی اور پنجاب اور دیگر جگہوں پر پیدا ہوں گے۔

بی جے پی کو امید ہے کہ وہ علاقائی پارٹیاں جو کانگریس کے ساتھ ہیں، آپس میں لڑ پڑیں گی، جس سے بھگوا پارٹی کو اپنا ایجنڈہ بڑھا کر زیادہ سے زیادہ نشستوں پر قبضہ کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *