زندگی قرآنی آیات کی روشنی میں، مال کی محبت جب انفاق میں رکاوٹ بن جائے تو خطرناک ہے

مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: ذاتی امور کے ساتھ اجتماعی اور معاشرتی امور پر توجہ دینا قرآن کی اہم تعلیمات میں شامل ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو اپنی زندگی کے ساتھ معاشرے میں بسنے والے دوسرے افراد کا بھی خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ زندگی کی ضروریات پوری کرنے میں مال و دولت کا کردار بنیادی ہے۔ اسی لئے انسان مال و دولت سے محبت کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مال کی محبت اس وقت خطرناک ہوجاتی ہے جب یہ انسان کو انفاق سے روک دے۔ اسلام میں انفاق کا مقصد صرف غربت اور فقر کا خاتمہ نہیں، بلکہ انفاق کے ذریعے انسان فکری اور روحانی ارتقاء کی طرف جاتا ہے۔ انفاق سے سخاوت اور قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

انفاق نیکی تک رسائی کا موثر ترین ذریعہ ہے چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّیٰ تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِیمٌ (سورہ آل عمران، 92)

“تم ہرگز حقیقی نیکی (اور بھلائی) کو نہیں پاسکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو، یقیناً اللہ اسے خوب جانتا ہے۔”

عربی میں “برّ” کا مطلب وسیع خیر و برکت اور ایسی زمین ہے جو کاشت اور سکونت کے لیے موزوں ہو۔ گندم کو بھی “بُرّ” کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اکثر انسانوں اور جانوروں کے لیے بنیادی غذا ہے۔

قرآن میں ایمان، نیک اعمال، جہاد، نماز، زکوٰۃ اور وفائے عہد جیسی صفات “برّ” کے نمونے کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ ایک اور آیت میں فرمایا گیا: لَیْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ الْمَلائِکَةِ وَ الْکِتابِ وَ النَّبِیِّینَ وَ آتَی الْمالَ عَلی حُبِّهِ ذَوِی الْقُرْبی وَ الْیَتامی وَ الْمَساکِینَ وَ ابْنَ السَّبِیلِ وَ السَّائِلِینَ وَ فِی‌الرِّقابِ وَ أَقامَ الصَّلاةَ وَ آتَی الزَّکاةَ وَ الْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذا عاهَدُوا وَ الصَّابِرِینَ فِی الْبَأْساءِ وَ الضَّرَّاءِ وَ حِینَ الْبَأْسِ أُولئِکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَ أُولئِکَ هُمُ الْمُتَّقُونَ(البقرہ: 177)

 نیکی یہ نہیں ہے کہ اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف کرلو بلکہ نیکی اس شخص کا حصّہ ہے جو اللہ اور آخرت ملائکہ اور کتاب پر ایمان لے آئے اورمحبت خدا میں قرابتداروں ً یتیموںً مسکینوں ً غربت زدہ مسافروںً سوال کرنے والوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے مال دے اور نماز قائم کرے اور زکوِٰ ادا کرے اور جو بھی عہد کرے اسے پوراکرے اور فقر وفاقہ میں اور پریشانیوں اور بیماریوں میں اور میدانِ جنگ کے حالات میں صبرکرنے والے ہوں تو یہی لوگ اپنے دعوائے ایمان و احسان میں سچے ہیں اور یہی صاحبان تقویٰ اور پرہیزگار ہیں۔

اس آیت کے نزول کے بعد کئی مؤمنین نے اپنے قیمتی اور محبوب اموال اللہ کی راہ میں انفاق کیے۔ ذیل میں چند نمایاں مثالیں پیش کی جارہی ہیں

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ایثار

جس دن حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو شادی کے بعد حضرت علیؑ کے گھر لے جایا جارہا تھا، ایک فقیر نے ان سے پرانے لباس کی درخواست کی۔ حضرت فاطمہؑ کو فوراً “لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ…” کی آیت یاد آئی، چنانچہ انہوں نے اپنا شادی کا جوڑا اس فقیر کو دے دیا اور خود پرانے کپڑوں میں گھر چلی گئیں۔

حضرت ابوطلحہ انصاری

مدینہ میں حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کے پاس سب سے زیادہ کھجور کے درخت تھے، اور ان کا ایک باغ سب سے زیادہ محبوب تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے واقع تھا اور اس کا پانی نہایت شیریں اور صاف تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کبھی کبھار اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کے چشمے سے پانی نوش فرماتے۔

یہ باغ بہت قیمتی اور آمدنی کا بڑا ذریعہ تھا، یہاں تک کہ لوگ اس کی تعریف کیا کرتے تھے۔ جب “لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ…” کی آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہؓ فوراً نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: “میری سب سے محبوب چیز میرا یہ باغ ہے، اور میں اسے اللہ کی راہ میں انفاق کرنا چاہتا ہوں۔”

رسول اللہ ص نے فرمایا: “یہ بہت نفع بخش تجارت ہے! لیکن میری رائے یہ ہے کہ اسے اپنے غریب رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔” حضرت ابوطلحہؓ نے اس مشورے کو قبول کیا اور اپنے قریبی مستحق رشتہ داروں میں یہ باغ تقسیم کر دیا۔

حضرت ابوذر غفاری کی سخاوت

ایک دن حضرت ابوذر غفاریؓ کے ہاں چند مہمان آئے۔ انہوں نے کہا کہ میں کچھ مصروف ہوں، تم خود میرے اونٹوں میں سے ایک کو ذبح کرکے کھانے کا انتظام کر لو۔ مہمانوں نے ایک کمزور اور دبلا اونٹ چنا۔ جب حضرت ابوذرؓ نے دیکھا تو ناراض ہوئے اور پوچھا کہ تم نے موٹا تازہ اونٹ کیوں نہیں لیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اسے تمہاری آئندہ ضرورت کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ اس پر حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ میری سب سے بڑی ضرورت کا دن وہ ہوگا جب میں قبر میں اتروں گا!

عبداللہ بن جعفر

حضرت عبداللہ بن جعفر (جو کہ سخاوت میں مشہور تھے) نے ایک دن ایک غلام کو باغ میں کام کرتے دیکھا۔ کھانے کے وقت ایک بھوکا کتا باغ میں داخل ہوا اور غلام کے سامنے بیٹھ گیا۔ غلام نے ایک نوالہ اس کتے کو دیا، مگر وہ کتا پھر بھی بھوک سے اسے دیکھتا رہا۔ غلام نے ایک ایک کرکے اپنی پوری روٹی اس کتے کو کھلا دی۔ عبداللہ بن جعفر نے حیرت سے پوچھا: “اب تم خود کیا کھاؤ گے؟” غلام نے جواب دیا: “آج میرا کھانے کا حصہ ختم ہوگیا۔” عبداللہ بن جعفر نے مزید پوچھا: “تم نے ایسا کیوں کیا؟”غلام نے کہا: “یہ کتا دور سے آیا ہے اور بہت بھوکا ہے، میں نے اس کی حالت دیکھ کر اپنا کھانا اسے دے دیا۔” عبداللہ بن جعفر اس غلام کے ایثار اور رحم دلی سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے وہ باغ اور غلام دونوں کو خرید لیا، غلام کو آزاد کر دیا اور پورا باغ بھی اسے ہدیہ کردیا۔

احادیث میں انفاق کی اہمیت

روایات میں آیا ہے کہ نیکی اور سخاوت کا ایک اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ والدین کی ضرورت پوری کرنے میں پیش قدمی کی جائے، چاہے وہ مالی طور پر محتاج نہ بھی ہوں۔ حضرت امام جعفر صادقؑ نے اپنے شاگرد مفضل بن عمر سے فرمایا: “میں نے اپنے والد (امام باقرؑ) سے سنا کہ جو شخص ایک سال تک اپنے مال سے ہمارا حق (خمس و زکوٰۃ) ادا نہ کرے، اللہ قیامت کے دن اس پر نظر نہیں کرے گا، مگر یہ کہ وہ توبہ کر لے۔” پھر فرمایا: “اے مفضل! یہ وہ فریضہ ہے جو اللہ نے ہمارے شیعوں پر لازم کیا ہے، جیسا کہ اپنی کتاب میں فرمایا: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ…” “ہم ہی برّ (نیکی)، تقویٰ اور ہدایت کا راستہ ہیں۔”

پیغامات اور نکات

1. نیکوکاروں کے مقام تک پہنچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسان خلوصِ دل سے اپنی محبوب چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ …

2. اسلام میں انفاق کا مقصد صرف فقر کا خاتمہ نہیں، بلکہ انفاق کرنے والے کا معنوی ارتقاء بھی ہے۔ اپنے خیالی محبوبات سے دل لگانے کے بجائے سخاوت کی روح کو بیدار کرنا ضروری ہے۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ …

3. دنیا سے بے جا محبت انسان کو حقیقی نیکی اور قربِ الٰہی سے محروم کر دیتی ہے۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ …

4. انسان کی حقیقی خوش بختی تب ہے جب وہ دوسروں کے ساتھ کریمانہ اور ہمدردانہ رویہ رکھے۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا …

5. انسان کے لیے سب سے قیمتی چیز اس کی جان ہے۔ شہداء جو اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں، سب سے بلند مقامِ نیکی پر فائز ہو جاتے ہیں۔ تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ …

6. انفاق میں معیار اہم ہے، نہ کہ مقدار۔ جو چیز آپ کے لیے قیمتی ہے، وہی راہِ خدا میں دیں، نہ کہ صرف وہ جو محتاجوں کو پسند ہو۔ مِمَّا تُحِبُّونَ (یعنی جو تم پسند کرتے ہو، نہ وہ چیزیں جو محتاجوں کو پسند ہیں۔

7. خدا پر بھروسہ رکھنے والا انسان دولت اور مال کا غلام نہیں ہوتا، بلکہ اس کا حاکم ہوتا ہے اور مال و دولت پر خود اختیار رکھتے ہیں۔ تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ …

8. اسلام، دولت پرستی کا نہیں بلکہ انسان دوستی کا مذہب ہے۔ تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ …

9. انفاق میں افراط و تفریط نہ ہو، بلکہ معتدل رویہ اختیار کیا جائے۔ قرآن کہتا ہے کہ “مِمَّا تُحِبُّونَ” یعنی “اپنی محبوب چیزوں میں سے کچھ خرچ کرو” (نہ کہ سب کچھ)۔

10. انسان فطری طور پر مال سے محبت رکھتا ہے، مگر یہ محبت تب خطرناک ہو جاتی ہے جب انفاق میں رکاوٹ بن جائے۔ وَ إِنَّهُ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیدٌ 

11. انفاق کم ہو یا زیادہ، اصل چیز خلوصِ نیت ہے۔ وَ ما تُنْفِقُوا مِنْ شَیْ‌ءٍ …

12. اللہ ہر انفاق کو دیکھ رہا ہے، تو کیوں نہ بہترین چیزیں راہِ خدا میں دیں؟ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِیمٌ۔

ان نکات ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ حقیقی نیکی تب حاصل ہوتی ہے جب ہم اپنی قیمتی چیزیں اللہ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ خرچ کریں، دنیا کی محبت سے آزاد ہوں، اور انفاق کو محض فقیروں کی مدد کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ اپنی روحانی ترقی اور قربِ الٰہی کے حصول کا وسیلہ بنائیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *