وائٹ ہاؤس عالمی سیاست میں سرگرداں، ایرانی وزیر خارجہ کی خصوصی تحریر

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنے ایک یادداشت میں امریکی صدر ٹرمپ اور یوکرائن کے صدر زیلنسکی کے درمیان حالیہ تنازعے کا ذکر کرتے ہوئے اپنی خصوصی تحریر میں لکھا ہے کہ بعض اوقات ایک باضابطہ ملاقات، سو سے زیادہ سفارتی بیانیوں سے زیادہ طاقت کے دامن میں چھپی حقیقتوں کو بے نقاب کردیتی ہے۔

عراقچی نے امریکہ اور یوکرائن کے صدور کی حالیہ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ، جی ڈی ونس اور ولادیمیر زلنسکی کے درمیان حالیہ جھگڑا صرف ایک معمولی اختلاف رائے نہیں تھا؛ اس واقعے نے بین الاقوامی نظام میں پھیلتے ہوئے گہرے شگافوں کو آشکار کیا۔

اس واقعے کے بارے میں کئی رائے موجود ہیں۔ کیا یہ لڑائی جان بوجھ کر کی گئی تھی؟ یا صورتحال قابو سے باہر ہوگئی؟ کیا اس کا مقصد داخلی و خارجی پیغامات بھیجنا تھا، یا یہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ثبوت تھا؟ جو بات واضح ہے وہ یہ کہ یہ واقعہ ایک ایسے اضطراب کی عکاسی کرتا ہے جس میں امریکی انتظامیہ مبتلا ہے۔

سالوں تک واشنگٹن نے اپنے آپ کو مغربی دنیا کے فیصلوں کا مرکز سمجھا ہے، مگر آج اس مرکزیت کو چیلنج درپیش ہے۔ وہ تنازع جو وائٹ ہاؤس میں ہوا، حکمت عملی کے فقدان، سفارتی غیر یقینی صورتحال اور مغربی بلاک کے اندر حل نہ ہونے والے اختلافات کی علامت ہے۔ ٹرمپ کی حکومت عالمی سیاست میں “جلدی امن” واپس لانے کا نعرہ لے کر آئی تھی۔ یہ وعدہ اب امریکی صدر اور ان کے نائب پر اضافی دباؤ بن چکا ہے۔ ٹرمپ اور ونس ایک حقیقی چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں: کیا وہ ایسی صورتحال میں جہاں جنگ کئی ممالک کے مفادات کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، اپنے عہدوں پر قائم رہ سکیں گے؟

اس زبانی لڑائی کا ایک اہم پیغام یہ ہے کہ یوکرین جنگ میں طاقت کا توازن بدل چکا ہے۔ زلنسکی، جنگ کے ابتدائی دنوں میں، مغربی امداد پر پہلے سے زیادہ انحصار کرتا تھا۔ مگر آج وہ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کے سامنے کھڑا ہے اور سخت جواب دے رہا ہے۔ یوکرین نے یہ ثابت کیا ہے کہ امریکی اتحادی بھی اپنے وقار اور مقام کی حفاظت کے لیے قیمت ادا کرتے ہیں۔

ایک اور بڑا سوال یورپ کا ردعمل ہے۔ کیا یہ براعظم یوکرین کی حمایت میں یکجہتی برقرار رکھے گا؟ یا اس تنازع کے بعد مغربی محاذ میں مزید گہرے شگاف ظاہر ہوں گے؟ فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی اتحادیوں نے ابتدا میں یوکرین کی جنگ کے حوالے سے محتاط موقف اختیار کیا تھا۔ دفاعی اور سیکیورٹی پالیسیوں میں اختلافات ابتدائی طور پر ہی موجود تھے۔

اب، وائٹ ہاؤس حکام اور زلنسکی کے درمیان زبانی جھگڑے کے بعد، یہ اختلافات واضح ہوچکے ہیں۔ یورپی، جو ابتدائی طور پر مشرقی یورپ کی صورتحال پر محتاط نظر رکھتے تھے، اب ان کے ذہن میں نیا سوال ابھررہا ہے کیا واشنگٹن کے پاس اب بھی مغربی اتحاد کی قیادت کرنے کی طاقت اور عزم باقی ہے؟

اس آشفتہ فضا میں، اسلامی جمہوریہ ایران احتیاط اور حکمت عملی کے ساتھ حالات کا جائزہ لے رہا ہے۔ عالمی سیاست میں آشفتگی ہمیشہ عالمی استحکام اور سلامتی کے لیے نقصان دہ رہی ہے۔

ایران، بہت سے ممالک کے برعکس ہمیشہ ان اصولوں پر زور دیتا آیا ہے کہ ملکوں کی خودمختاری کی رعایت اور باہمی احترام کا رشتہ برقرار رہنا چاہیے اور غیر تعمیری بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ ایک ہوشیار انتخاب، حکمت عملی پر مبنی فیصلہ اور ملک کی خارجہ پالیسی کا ایک ناقابل تبدیل اصول ہے۔ کچھ ممالک کے برعکس جو اپنی سلامتی اور استحکام کو غیر ملکی طاقتوں سے وابستہ رکھتے ہیں، ایران نے شروع ہی سے یہ سمجھا کہ بیرونی طاقتوں کے ساتھ وابستگی صرف عدم استحکام اور قومی خودمختاری کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔ حقیقی امن اور استحکام غیر ملکی طاقتوں کے حمایت سے نہیں، بلکہ قومی وسائل اور عوام پر اعتماد سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی لیے ایران نے ایک مختلف راستہ اپنایا ہے؛ ایسا راستہ جہاں ملک کا مقدر دوسروں کے فیصلوں پر منحصر نہ ہو، اور پالیسی سازی غیر ملکی مشوروں کے بجائے قومی مفاد کے تحت کی جائے۔

خودمختاری کے تحفظ کے لیے قیمت  چکانا پڑتی ہے جسے ایران نے ہمیشہ ادا کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کے ابتدائی دنوں سے ہی اقتصادی دباؤ، پابندیاں، دھمکیاں اور پراکسی جنگوں نے ایران کو اپنی حکمت عملی مرتب کرنے کا درس دیا ہے۔ ایران نے دشمنوں کے اندازوں کے برعکس حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور یہ ثابت کردیا کہ دباؤ کا سامنا کرنے کے باوجود نہ صرف وہ ہار نہیں مانتا، بلکہ اپنے داخلی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے ترقی اور پیشرفت کے راستے پر گامزن رہتا ہے۔ یہ ایک اصول بن چکا ہے کہ ایران اپنی سلامتی کے لیے کسی سے بھیک نہیں مانگتا بلکہ خود اس کو یقینی بناتا ہے۔ ہم دوسروں پر انحصار نہیں کرتے کہ وہ ہماری حمایت کریں، بلکہ سائنس، دفاعی طاقت اور داخلی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے دفاع کا انتظام خود کرتا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *