[]
جواب:- یہ بات دیکھی گئی ہے اور سابق میں اس مسئلہ پر بارہا لکھا جاچکا ہے کہ معصوم اور غریب مالکینِ اراضی بلڈرکی باتوں میں آکر 50:50 اساس پر ڈیولپمنٹ معاہدہ کرلیتے ہیں۔
بلڈر کہتاہے کہ ہم میونسپل کارپوریشن ٹاؤن پلاننگ ڈپارٹمنٹ کے لوگوں کا منہ بند کرچکے ہیں اور پانچ منزلہ کامپلکس کی تعمیر کے بعد (BPS) کے تحت غیر مجاز تعمیرات کو باقاعدہ بنالیںگے۔ بلڈر آپ کو دھوکہ دے رہا ہے اور آپ بھی لالچ کا شکار ہورہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ دوسو مربع گز اراضی پر پانچ منزلہ بلڈنگ کی تعمیر کی اجازت ہی نہیںمل سکتی۔ معاہدہ کے بعد بلڈر خریداروں سے اڈوانس وصول کرکے تعمیر شروع کردیتا ہے اور نادان خریدار اس جال میں بری طرح پھنس جاتا ہے۔ بلڈر تو ہر حال میں فائدہ میں رہے گا لیکن مالکِ اراضی ‘ فلیٹس کے خریدار بے موت مارے جائیں گے۔
اگر کسی پڑوسی نے شکایت کردی کہ غیر مجازتعمیر ہورہی ہے تو سب سے پہلے میونسپل عملہ خاموش رہتا ہے ۔ پھر کہتا ہے کہ دیکھئے آپ کے خلاف شکایت آئی ہے ۔ آپ شکایت کرنے والے سے صلح کرلیجئے ۔
اگر شکایت کرنے والا ضدی ہو اور دشمنی رکھتا ہو تو وہ سیدھے ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر کہے گا کہ میرے پڑوس میں ایک غیر مجاز بلڈنگ تعمیر ہورہی ہے جس کی شکایت میں نے ٹاؤن پلاننگ عملہ سے کی ہے لیکن انہوں نے کارروائی نہیں کی غالباً وہ لوگ بلڈر اور مالکین سے رشوت کھائے ہوئے ہیں ورنہ وہ ضرور کوئی کارروائی کرتے۔
ہائیکورٹ فوری کمشنر میونسپل کارپوریشن کو ہدایت جاری کرے گا کہ خاطی بلڈر /مالک کے خلاف ازروئے قانون کارروائی کریں۔ اس کے بعد نوٹس آئے گی اور جواب طلب کیا جائے گا ۔ پھر دوسری نوٹس آئے گی جس میں کہا جائے گا کہ تعمیری کام نہ کرو۔
پھر تیسری نوٹس زیر دفعہ636 آئے گی کہ اندرون 24 گھنٹے غیر مجاز تعمیرات کو منہدم کردیاجائے ورنہ ہم انہدامی کارروائی کریں گے ۔ پھر میونسپل کارپوریشن کا عملہ آئے گا اور ساری زیرِ تعمیر عمارت کا انہدام کردے گا۔
ضروری اقدامات
-1 جب تک تعمیری منظوری حاصل نہ ہو تعمیری کام کا آغاز نہ کیاجائے۔
-2 خریدار ہرگز ہرگز بلڈر کو اڈوانس ادا نہ کریں۔
-3 تعمیر صرف منظورہ پلان کے مطابق ہی کیجئے۔
-4 BPS اسکیم بند ہوچکی ہے جس کے دوبارہ کھلنے کا کوئی امکان نہیں۔
-5 کسی بھی معاہدہ سے پہلے قانونی مشورہ ضرور حاصل کیجئے چاہے آپ مالکِ اراضی ہوں یا خریدار۔
-6 زیرِ تعمیر کامپلکس کی خرید کا معاہدہ کسی حال میں نہ کریں۔ ورنہ بھاری نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
ایک بات ضرور سن لیجئے ۔ اس ضمن میں آپ کو ہائیکورٹ سے کوئی راحت نہیں مل سکتی۔