[]
رشید پروین (کشمیر)
پی ڈی پی رہنما محترمہ محبوبہ مفتی نے مسٹر غلام نبی آزاد (سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر) کے ایک حالیہ بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ،غلام نبی آزاد کا یہ بیان بی جے پی ، آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے بیانئے کی صدائے بازگشت ہے ۔ کے این ایس کے مطابق اپنے ایک حالیہ بیان میں شری غلام نبی آزاد نے کہا ہے کہ ہندوستان میں بنیادی طور پر سارے مسلمان ہندو ہی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا، محبوبہ مفتی نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسی نظریئے اور مائنڈ سیٹ کی وجہ سے سارے دیش میں مسلمان غیر محفوظ اور مظالم یا تشدد کا شکار ہو چکے ہیں۔بہر حال دیکھا جائے تو غلام نبی آزاد جیسے گھاگ سیاست کار اور وہ بھی کانگریس پارٹی میں پروان چڑھے ہوئے سینئر سیاستداں سے اس بیان کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ میں نہیں جانتا کہ ان جملوں کا سیاق و سباق کیا تھا اور کس پس منظر میں انہوں نے یہ الفاظ دہرائے ہیں، جن میں یقینی طور پر ان ہی پارٹیوں کی بو باس بسی ہے ، اور اس پر حیرانگی واجب ہی ٹھہرتی ہے ۔ یہ آپ کو یاد ہی ہوگا کہ کانگریس میں جہاں وہ جوان بھی ہوئے اور اسی سیاسی محل میں اپنے بڑھاپے کے زینوں پر بھی قدم رکھے ہیں ، اچانک ہی وہاں سے واپسی کا سفر کیا تھا ، اور یہ بھی اپنی جگہ پر اچنبھے کی بات تھی کیوں کہ یہ صاحب تو کانگریس کے بڑے بڑے جگادری لیڈروں میں بھی شمار رہے اوراس پارٹی کے کلیدی عہدوں کے علاوہ اسی کانگریس کی وساطت سے جموں و کشمیر کے چیف منسٹر اور منصوبہ سازوں میں بھی رہے ۔ کانگریس سے پوری نصف صدی کے بعد اپنی راہیں الگ کرنے کا جو جواز انہوں نے دیا تھا، وہ قبول کیا گیا یا نہیں ،اس بات پر کوئی بحث نہیں ،لیکن بڑی جلدی ہی انہوں نے اپنی ایک الگ ”آزاد ڈیمو کریٹک پارٹی‘ تشکیل دی تھی ۔
بہرحال آزاد صاحب ہاف سنچری، پورے پچاس برس جو ہر لحاظ سے بہت ہیں ، کانگریس کے ساتھ ہم قدم رہے ہیں ، چار وزرائے اعظم اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی ، نرسمہا راو¿ اور من موہن سنگھ کے ساتھ کام کیا اور اور گاندھی فیملی کے بہت ہی قریبی شخص سمجھے جاتے تھے ، جن کے ساتھ اچھی خاصی قربتیں رہیں ، بہت اچھے سوجھ بوجھ اور اپنے آپ کو بہترپارلیمنٹیرین ثابت کیا ، اور ہمارے سامنے جموں و کشمیر میں ان کا جو چیف منسٹر کی حیثیت سے وقفہ ہے ، میری ذاتی رائے کے مطابق بڑا شاندار اور جاندار رہا کیوں کہ صرف تین سال کے عرصے میں انہوںنے کئی بڑے پروجیکٹ نہ صرف مکمل کیے بلکہ یوں لگتا تھا کہ تعمیر و ترقی پر واقعی سرکار مر کوز ہو چکی ہے ۔ظاہر ہے کہ ان کا سیاسی سفر شاندار رہا ہے ۔ بی جے پی سر کار نے ماضی قریب میں انہیں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا ہے اور اس وقت اس خیال نے شدو مد کے ساتھ جنم لیا تھا کہ شاید وہ بی جے پی جوائن کرنے والے ہیں ،کیوں کہ بی جے پی کا غلام نبی آزاد کو ایوارڈ دینا ایک انہونی سی لگتی تھی جو کسی وجہ سے” ہونی“ میں تبدیل ہوئی ، لیکن نئی پارٹی بنانے کے بعد یہ خیال غلط ثابت ہوا تھا ، اس کے باوجود کئی بڑے سیاست دانوں نے اس پارٹی کو بھی بی جے پی کی بی ٹیم قرار دیا تھا، لیکن اسے ہم سیاسی بیان بازی سے ہی تصور کریں گے ۔اس نئی پارٹی کے ساتھ کچھ اہم شخصیات اور کانگریس سے پہلی کیڈر کے لیڈروں کے علاوہ ایک بڑی کھیپ بھی غلام نبی آزاد کی نئی پارٹی میں اکاموڈیشن کی متلاشی تھی اور حق یہی ہے کہ جموں میں ان کا نہ صرف والہانہ استقبال ہوا تھا بلکہ سیاسی طور پر پہلے ہی مرحلے میںاس پارٹی سے متعلق ایک اچھا تاثر بنا تھا ،بلکہ اس خیال نے بھی جنم لیا تھا کہ غلام نبی آزاد کی یہ نئی پارٹی سیاسی لحاظ سے شایدجموں و کشمیرکی سیاست میں کچھ نئی منزلیں اور اہداف مقرر کرے، لیکن صرف پچھلے ایک سال کے دوران ہی اس پارٹی کی چمک ماند پڑ گئی اور لوگوں کی توقعات پر بھی پوری نہیں اتری جس کی وجہ سے اس مختصر سے عرصے میں اس کے ورکرس اور کارکنان میں ایک طرح سے مایوسی ہی پھیل گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ یہ لوگ اپنے اپنے گھونسلوں میں واپس جانے اور اکاموڈیٹ ہونے کے آرزو مند ہوئے ۔ واپسی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ شاید وہ سمجھتے ہوں کہ کانگریس کی واپسی جلد یا بدیر ناممکن نہیں ، دوئم یہ کہ اس کا یہ عندیہ ابھی تک کہیں سے نہیں ملا کہ یہ پارٹی بی جے پی کی فیورٹ ہے جس سے مستقبل میں اقتدار ملنے کا گماں کیا جاسکتا ہے ،اور جو کچھ بھی شاید ان لوگوں کی توقعا ت اس نئی پارٹی سے وابستہ رہی ہوں، وہ بھی پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتیں اور ان جمہوری پارٹیوں میں اب دل بدلنا کوئی معیوب بات بھی نہیں رہی ہے بلکہ یہ بھی ایک جمہوری عمل ہی کے مترادف قرار دیا جارہا ہے ۔ یوں بھی سیاستدانوں کے پاس لیلائے اقتدار سے دور رہنے اور ہجر کی راتیں گزارنے کی تڑپ اور کسک برداشت کی ہمت اور حوصلہ نہیں ہوتا۔شاید ان کے ساتھیوں نے اپنی راہیں الگ کرنے کا من بنالیا ہو ،شاید آزاد صاحب اب خود بھی کنفیوزڈ ہیں اور یہ بیان کچھ اسی طرح کی کیفیت کا غماز ہے ۔
کچھ معاملات میں یعنی کچھ سوالات کے جوابات میں آزاد کے الفاظ کا متن سید الطاف بخاری کے الفاظ سے ہی ملتا جلتا تھا جو انہوں نے یہ پارٹی لانچ کرتے وقت دہرائے تھے ۔ سب سے پہلے آزاد صاحب نے جموں و کشمیر کی ترقی ، خوشحالی ، اور امن کے بارے میں کہا تھا ۔یہ الفاظ این سی ، ۷۰ برسوں سے دہرا تی رہی، پی ڈی پی نے بھی اپنی ابتدا سے اور اس کے بعد اگر آپ کو یاد ہوگا تو الطاف صاحب نے بھی سب سے پہلے یہی الفاظ دہرائے اور کہے تھے۔ اب این سی ستر برسوں میں انہیں عملی جامہ نہیں پہنا سکی اور الطاف صاحب تو بہر حال ابھی اقتدار سے باہر ہیں، اس لیے بس نئی آزاد کی پارٹی اورپی ڈی پی کا صرف لفظی موازنہ ہی بہتر رہے گا ،لیکن انہوں نے اس امن میں گاندھیائی سیاست اور نظریات کو ضرور جوڑا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ گاندھی جی سے متاثر رہے ہیں ، اور شاید ان الفاظ کا مفہوم یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ ان کے نقش قدم ہی پر آگے بڑھتے رہیں گے ۔
بہر حال آزاد ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہیں ، ان کے من میں کیا چل رہا ہوگا، اس کا فہم مشکل ہی ہے، ”یہ ایک جمہوری پارٹی ہوگی“ ، ایسا کہنا بھی کوئی خاص اور اہم بات نہیں، کیوں کہ زمینی سطح پر پرکھا جائے تو کون سی پارٹی اپنے آپ کو جمہوری نہیں کہتی۔ ۷۰ ۳ کے بارے میں ان کا موقف بھی سید الطاف بخاری ہی کے موقف کی بازگشت تھی۔ سید الطاف بخاری نے دو ٹوک کہا تھا کہ اب یہ قصہ پارینہ ہے اور اس کے لیے کوئی بھی تگ و دو لایعنی ہی ہوگی۔ یہاںاب صرف انداز بیاں ہی کا فرق رہ جاتا ہے ، دونوں نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ مرکز کی پالیسی کو قبول کرتے ہیں ، اور جو کچھ بھی ہوا ہے ، ہو چکا ہے اور بقول ِ اندرا جی گھڑی کی سوئیوں کو پیچھے نہیں موڑا جاسکتا۔ آزاد صاحب کا قد جموں کے ناردرن مسلم ائریاز میں ہمارے مینسٹریم لیڈروں سے کافی اونچا ہے ، لیکن کوئی بھی سیاسی پارٹی کبھی کسی خاص ائریا تک اپنی سیاست محدود کرکے بڑی اور کسی اہم پارٹی کے طور پر نہیں ابھرتی اور آزاد صاحب نے بارہا اپنے مسلم ایریا کے تذکرے کیے اور اس ایریا کی پسماندگی اور پچھڑے پن کوضرور ابھارا ہے، لیکن اس کوشش میں پارٹی کا کینواس ہی شاید سکڑ کر رہ گیا ہے۔ اب جہاں تک آزاد صاحب کے حالیہ بیان کا تعلق ہے، جس پر محبوبہ جی نے اپنا سخت رد عمل دیا ہے ، ظاہر ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام عمومی طور پر اسے پسند نہیں کریں گے ، کیوں کہ اس کے بعد جو الفاظ اس میں جوڑے جاسکتے ہیں وہ یہی ہوں گے کہ ” گھر واپسی ہو “جو کئی پارٹیوں کا منشور و محور ہے۔ استقامت اور اصولوں کی سیاست کہیں بہت پیچھے رہ گئی ،شاید اس پارٹی کے ساتھ ہمقدم ہونے کی وجہ بھی یہی رہی ہو کہ یہ بی جے پی کی ہی بی ٹیم ہے جسے لانچ کر کے اقتدار سونپا جاسکتا ہے ، لیکن شاید اب یہ خیال ہی بدل چکا ہے ۔ بیان کا متن اور معنی عام فہم زباں اور عمومی طور پر وہی ہے جو موجودہ سرکارکے پیچھے ان طاقت ور حلقوں یا پارٹیوں کا ہے جو اپنے ایجنڈے کو ہر لمحے اور ہر طریقے سے روبہ عمل لانے کے لیے بہت تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیںیا ان الفاظ کو یا اس بیان کو بھی کسی اورہی سیاسی ”حادثے“ کا پیش خیمہ سمجھا جاسکتا ہے ۔اس سوال کا جواب پانے کے لیے تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا۔
٭٭٭