دنیا کی کوئی طاقت فلسطینیوں کو بے دخل نہیں کرسکتی، ٹرمپ کی کیا حیثیت ہے!

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، الناز رحمت نژاد، یاسر المصری: ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ آمد کے بعد غزہ کے فلسطینیوں کے بارے میں نیا امریکی منصوبہ سامنے آیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے امن اور سیکورٹی کے نام پر فلسطینیوں کو غزہ سے کسی پڑوسی ملک میں منتقل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی میں صیہونیوں کے حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں کو جواز بنا کر اس علاقے سے مکمل طور پر تخلیہ کرنے اور وہاں کے مکینوں کو ہمسایہ عرب ممالک جیسے مصر اور اردن منتقل کرنے اور 365 کلومیٹر طویل پٹی پر قبضے کا عندیہ دیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنی تجویز کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد فلسطینیوں کی سلامتی اور سکون کو یقینی بنانا ہے تاکہ وہ تشدد اور بدامنی سے محفوظ رہیں حالانکہ اب تک فلسطینیوں کے نسل کشی میں سب سے زیادہ کردار امریکیوں کا ہی رہا ہے اور صیہونی حکومت کو غزہ کی نسل کشی کے لیے امریکیوں کی طرف سے سب سے مہلک جنگی ہتھیار فراہم کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ مصر اور اردن کو اس امریکی منصوبے کو قبول کرنا چاہیے۔

مسلمان ممالک اور عالمی برادری کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ مصر اور اردن نے ان کی مخالفت کی ہے جبکہ فلسطینیوں نے اس منصوبے کو خطرناک اور نسلی صفائی کی سازش قرار دیا ہے۔ آنے کے باوجود ٹرمپ نے کئی مرتبہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

حماس سمیت فلسطینی مقاومتی تنظیمیں امریکہ اور صہیونی حکومت کی اس تجویز کے سامنے مکمل مقاومت کا عندیہ دی رہی ہیں۔ حماس کے ثقافتی امور کے مشیر شیخ حسین قاسم نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کا منصوبہ نیا نہیں ہے بلکہ بہت پرانا ہے۔

شیخ حسین قاسم حماس کے ثقافتی امور کے مشیر ہیں اور حال ہی میں محمد اسماعیل درویش کی قیادت میں حماس کے ایک وفد کے ہمراہ ایران کا دورہ کرکے ایرانی حکام سے ملاقات کرچکے ہیں۔

فلسطینیوں کی بے دخلی قدیم استعماری منصوبہ

شیخ حسین قاسم نے اس گفتگو کے آغاز میں کہا کہ فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کا منصوبہ نیا نہیں ہے بلکہ یہ ایک پرانا منصوبہ ہے، اور فلسطین میں سازشیں 1917 میں برطانوی قبضے کے بعد شروع ہوئیں اور آج تک جاری ہیں۔ فلسطینیوں کی نقل مکانی کا منصوبہ 1948 کے بعد 1956 میں ان فلسطینیوں کے لیے شروع ہوا جو باقی رہ گئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 1970 میں تمام اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ فلسطینیوں کو جلاوطن کیا جائے گا۔ 1970 میں ہم نے دیکھا کہ غزہ کی پٹی مکمل طور پر صیہونی رژیم کے زیر قبضہ آگئی تھی۔ 1967 میں غزہ کی پٹی کے ساتھ ساتھ صحرائے سینا بھی صیہونیوں کے قبضے میں آگیا۔ اگر وہ فلسطینیوں کو صحرائے سینا میں جلاوطن کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو یہ پورا علاقہ ان کے زیرقبضہ آجاتا۔ فلسطینیوں کا اپنی زمین سے گہرا تعلق اس منصوبے کو روکنے کی سب سے بڑی وجہ بنا۔ فلسطینی عوام کی اپنی سرزمین سے محبت ان کی سب سے بڑی طاقت ہے جو ایسی سازشوں کو ناکام بناتی ہے۔

دنیا کی کوئی طاقت ہمیں بے دخل نہیں کرسکتی، ٹرمپ کی کیا حیثیت ہے!

انہوں نے مزید کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ غزہ میں کیا قتل و غارتگری اور جرائم ہورہے ہیں۔ ہسپتال میں ڈیوٹی پر تعیینات ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک 60 سالہ بزرگ شخص اپنے گھر کے کھنڈرات پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ خیمے میں رہ رہا تھا اور اس کی بیوی اور بچے گھر کے ملبے میں دب کر رہ گئے تھے اور ابھی تک ان کو دفن نہیں کیا گیا تھا۔ عمر رسیدگی کے باوجود اس پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن اس بزرگ نے انکار کردیا اور کہا کہ یا تو میں شہید ہوجاؤں گا یا اپنی زمین کے ساتھ اپنے عہد کو دوبارہ تجدید کرنے تک یہاں رہوں گا۔

شیخ حسین قاسم نے کہا کہ ہم فلسطینی اپنی زمین سے محبت نہیں کرتے بلکہ فلسطین ہم سے محبت کرتا ہے۔ ڈاکٹر نے اس بزرگ سے پوچھا: کیا آپ کے پاس فون ہے؟ بزرگ نے جواب دیا: نہیں۔ پھر ڈاکٹر نے پوچھا: کیا آپ کے پاس کھانا ہے؟ اس نے کہا: رزق اللہ دیتا ہے۔ ڈاکٹر اس بزرگ کی اپنی سرزمین سے وابستگی اور ایمانی طاقت کو دیکھ کر حیران رہ گیا خاص طور پر اس حالت میں جب وہ بغیر پانی اور کھانے کے زندگی گزار رہا تھا۔ یہ فلسطینی عوام کی اپنی سرزمین سے گہری وابستگی کی ایک مثال ہے جس سے وہ کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ دنیا کی تمام سازشیں، ٹرمپ اور اس سے طاقتور بھی لوگ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نہیں نکال سکتے۔

غرب اردن غزہ سے زیادہ سخت محاصرے میں

حماس کے ثقافتی مشیر نے اپنی گفتگو کے دوران مزید کہا کہ فلسطینی قوم ایک مزاحمتی قوم ہے۔ غرب اردن غزہ سے بھی زیادہ محاصرے میں ہے اور حقیقت میں جو کچھ اس میں ہے اسی سے مزاحمت کر رہا ہے۔ غزہ کے لیے صحرائے سینا سے اسمگلنگ کے راستے موجود تھے، لیکن مغربی کنارے میں اسمگلنگ بہت مشکل ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ جنین اور طولکرم میں جنگ جاری ہے۔ جہاں صیہونی جدید ہتھیاروں کے باوجود کسی قصبے میں بھی داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ وہ تباہی مچاسکتے ہیں لیکن وہاں فلسطینیوں کے سامنے مقاومت نہیں کرسکتے۔ جہاد جاری ہے۔ غزہ میں جنگ بندی ہو چکی ہے لیکن مغربی کنارے میں مقاومت اپنے راستے پر گامزن ہے۔ ہماری قوم کے پاس وسائل بہت کم ہیں لیکن ان کی اصلی طاقت ان کا عزم ہے۔ فلسطینی انتظامیہ بھی صہیونی کے زیراثر ہے۔ اس کے پاس فیصلہ سازی کی طاقت نہیں ہے اور نہ ہی یہ حقیقت کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

انقلاب اسلامی ایران حریت پسند تحریکوں کے لئے بے مثال نمونہ ہے

شیخ حسین قاسم نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے انقلاب اسلامی کے بعد ان  سالوں کے دوران فلسطین کی مسلسل حمایت کی۔ امام خمینی (رح) جب عراق میں تھے اور ابھی ایران واپس نہیں آئے تھے اور فلسطین پر بھی بائیں بازو کی سوشلسٹ اور مارکسسٹ مقاومت حاکم تھی اور حماس جیسی تنظیم تشکیل نہیں پائی تھی لیکن اس کے باوجود امام خمینی نے فتوی دیا کہ فلسطینی مزاحمت کو خمس اور زکات دینا جائز ہے۔ جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو امام خمینی نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ صیہونی حکومت کے سفارت خانے کو بند کیا اور اس کا پرچم اتار کر فلسطینی سفارت خانہ قائم کیا اور فلسطین کا پرچم بلند کیا۔

امام خمینی نے مسئلہ فلسطین کی حمایت اور بیت المقدس کی آزادی کے حوالے سے مسلمانوں کے درمیان یکجہتی ایجاد کرنے کے لئے رمضان کے آخری جمعہ کو یوم قدس قرار دیا۔ آج فلسطین کی حمایت میں رہبر معظم انقلاب، آیت اللہ خامنہ ای (مدظلہ العالی) نے امام خمینی (رح) کے راستے کو جاری رکھا ہے۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ حماس کی شورا کے صدر محمد اسماعیل درویش کی قیادت میں تنظیم کا وفد ایران آکر آیت اللہ العظمی خامنہ ای اور ایرانی حکام سے ملاقات کرنا چاہے۔ ان شاء اللہ ایران، لبنان، یمن اور عراقی بھائیوں کی حمایت سے ہم اسرائیل کو نابود کریں گے۔ اسلامی انقلاب ایران تمام حریت پسند تحریکوں کے لیے منفرد نمونہ عمل ہے۔ ان شاء اللہ جب فلسطین آزاد ہوگا تو اس کے حکومتی نظام کی تشکیل میں اسلامی جمہوریہ ایران کے طریقہ کار سے استفادہ کیا جائے گا۔ لبنان اور غزہ میں مقاومت کی کامیابیوں کا اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے ساتھ ہم آہنگ ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ فتح قریب ہے۔

فلسطینی مجاہدین حافظ قرآن ہیں

حماس کے ثقافتی مشیر نے اپنی گفتگو کے اختتام پر کہا کہ جو شخص اپنی سرزمین کو قابض قوتوں سے آزاد کرانا چاہتا ہے، اسے اپنے بچوں کے دلوں میں صحیح عقیدہ بٹھانا ہوگا اور یہ کام غزہ کے عوام نے خصوصی توجہ کے ساتھ کیا ہے۔ غزہ میں مجاہدین کی اکثریت حافظ قرآن ہے۔ فلسطین میں صرف ایک آیت یا سورہ پڑھنے کا معمول نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کو سورہ فاتحہ سے لے کر سورہ الناس تک پڑھنا اور حفظ کرنا ضروری ہے۔ قرآن حفظ کرنے میں آٹھ سے دس سال لگ سکتے ہیں۔ فلسطینی قوم ایمان رکھتی ہے اور جانتی ہے کہ دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ہم سب یہاں مہمان ہیں۔ اسی عقیدے کے ساتھ فلسطینی عوام آگے بڑھتے ہیں اور اپنی روح اور جسم کو اپنی سرزمین پر قربان کرتے ہیں۔ عقیدے کی راہ میں ہم اپنے رہنماؤں تک کو قربان کرتے ہیں چنانچہ شہید قاسم سلیمانی، شہید اسماعیل ہنیہ، شہید صالح العاروری، شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین اس کی واضح مثال ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *