مہر خبررساں ایجنسی، میگزین ڈیسک: دنیا کی دولت اور حسن کے لئے محبت کی کہانیاں زبان زد عام ہیں لیکن کسی اعلی ہدف کے لئے سچی محبت کی داستانیں کم سننے کو ملتی ہیں۔ امریکہ اور صہیونی حکومت کے مظالم کے خلاف مقاومت کرنے والے جوانوں کی بہادری اور قوم و ملت کے لئے قربانی نے عوام مخصوصا خطے کے مستضعفین کے دل جیت لیے۔
حزب اللہ کے ہاتھوں میدان جنگ میں ہزیمت آمیز شکست کے بعد صہیونی حکومت نے بزدلانہ اقدامات کا سہارا لیا۔ پیجر دھماکوں میں حزب اللہ کے اراکین سمیت ہزاروں بے گناہ شہری شہید اور زخمی ہوگئے۔ متعدد لوگ زندگی بھر کے لئے معذور ہوگئے۔
معذور افراد کو معمولا زندگی میں سہارا دینے والے کم ملتے ہیں لیکن حزب اللہ کے مجاہدین اپنے خلوص اور قربانی کی وجہ سے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں۔ لبنانی دوشیزہ نے حزب اللہ کے زخمی مجاہد کو شریک حیات بناکر زندگی بھر اس کو سہارا دینے کا فیصلہ کیا۔
دوشیزہ “ایلاف” نے صہیونی حکومت کے بزدلانہ حملے میں بینائی سے محروم ہونے والے “ہادی” کی تاریک دنیا کو روشن کیا۔ یوں “ایلاف” حضرت علیؑ کی اس روایت کا عملی نمونہ بن گئی: “اچھی شوہرداری عورتوں کا جہاد ہے۔
یہ کہانی اسی جوڑے کی شادی کی ہے جو تہران میں ہوئی۔ حسب روایت تقریب کے دعوت نامے تقریبا دو ہفتے پہلے تقسیم کیے جا چکے تھے اور مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔
شادی کی تقریب کے لیے تہران کے “ہفتم تیر” شادی ہال کا انتخاب کیا گیا تھا۔ خواتین اور انقلابی لڑکیاں ہال کے دروازے پر جمع تھیں۔ ہر لمحہ بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی۔ نکاح کی میز (سفرۂ عقد) پوری طرح سجائی گئی تھی۔
زرد رنگ کے جھنڈے، جو لبنانی مزاحمت کی علامت ہیں، ہوا میں لہرا رہے تھے۔ کچھ خواتین اور لڑکیاں مہمانوں کی رہنمائی کر رہی تھیں، کچھ مہمانوں کی تواضع میں مصروف تھے، جبکہ باقی نکاح کی میز مکمل کرنے کے لیے ادھر اُدھر دوڑ رہے تھے۔
لبنانی دلہن اور دولہا کی نکاح کی میز کا ایک حصہ رہبر معظم انقلاب اور شہید مزاحمت سید حسن نصراللہ کی تصاویر سے مزین کیا گیا تھا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ تقریب میں شہداء بھی مدعو تھے جبکہ شہداء کے لواحقین جن میں سے کچھ شہداء کی مائیں اور بیویاں تھیں، مہمان خصوصی کے طور پر شریک تھیں۔
خواتین خوشی سے روایتی شادی کا نعرہ بلند کر رہی تھیں اور مٹھائیاں آسمان کی طرف اچھال رہی تھیں۔
نوجوان لڑکیاں سفید اسکارف پہنے دلہا اور دلہن کے استقبال کو تیار کھڑی تھیں۔ بڑی بڑی کیکیں، جو مہمانوں کے لیے تیار کی گئی تھیں، بڑی محنت سے بھیڑ میں سے گزارتے ہوئے نکاح کی میز پر رکھی جارہی تھیں۔
کوئی بھی اس تقریب میں خالی ہاتھ نہیں آیا تھا۔ ہر مہمان نے کوئی نہ کوئی تحفہ لایا تھا تاکہ آج کے زخمی دلہا اور دلہن کو پیش کرسکے۔ ایک کمسن بچی نے اپنا اسکارف تحفے میں دیا، جبکہ ایک درمیانی عمر کی خاتون نے اپنے مرحوم شوہر کی یادگار نذر کی۔