راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا – وقف ترمیمی بل اور یکساں سول کوڈ:مسلمانوں کے لئے ایک چیلنج

تحریر:سید سرفراز احمد

کیا آپ کے ذہن میں کبھی یہ سوال آیا ہے کہ انتخابات کے دوران کیئے جانے والے وعدوں کو سب سے ذیادہ کونسی پارٹی پورا کرتی ہے؟آپ کے ذہن میں جو بھی ہو لیکن گذشتہ ایک دہائی کی زمینی صورت حال کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے بی جے پی وہ واحد پارٹی ہے جو اپنے کیئے وعدوں سے بھر پور وفا کرتی آئی ہے لیکن ذرا ٹھریئے سوال ہے کونسے وعدے؟ کیونکہ بی جے پی جب سے برسر اقتدار پر براجمان ہوئی ہے اس نے سیاسی وعدوں کی اصطلاح کا ایک الگ ہی طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے اصل میں جو عوام کی بنیادی ضرورتیں روزگار،تعلیم،مکان،علاج،وغیرہ یا اوربھی مسائل ہوتے ہیں بی جے پی ان تمام چیزوں کو عوام کی ضرورت نہیں سمجھتی ہے اسی لیئے ایسے وعدے کرتی بھی نہیں اگر کرے گی تب بھی پورے نہیں کرے گی ہاں وعدوں کی دوسری شکل جو خاص طور پر مسلمانوں کو پوری طرح حصار بندی میں لیتی ہو ایسے وعدوں کو وہ بہت جلد تکمیل تک پہنچاتی ہے اور پھر بڑی شان سے فخریہ انداز میں کہتی ہے کہ دیکھو ہم نے یکساں سول کوڈ کو وعدے کے مطابق نافذ کرکے دکھایا ہے۔

 

جی ہاں اتراکھنڈ کے وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی نے 27جنوری کو اپنی ریاست میں یکساں سول کوڈ کے پورٹل کا افتتاح کرتے ہوۓ یہی کہا کہ ہم نے اپنے سیاسی وعدے کی تکمیل کی کیا یہ سوال پشکر سنگھ دھامی سے نہیں پوچھا جانا چاہیئے کہ یکساں سول کوڈ کے کیا فوائد ہیں؟کیا یکساں سول کوڈ دستور کی رو سے مطابقت رکھتا ہے؟کھلے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اتراکھنڈ حکومت نے دستوری حق دفعہ 25 اور 26 کو عوام سے چھین لیا ہےجس میں یہ تحریر کردہ ہے کہ تمام شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی رہے گی تو ایسے سیاہ قوانین کسی بھی قوم یا طبقہ کا کیسےبھلا کرسکتی؟ لیکن یہ قانون ہندو راشٹر کے قیام کے منصوبے کی پیش رفت کاایک اہم حصہ ہے اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی چاہتی تو اس قانون کو اترپردیش، آسام یا مدھیہ پردیش میں نافذ کرسکتی تھی لیکن اس نے ایک چھوٹی سی ریاست میں اس قانون کو تجربہ کی غرض سے نافذ کیا ہے ویسے اتراکھنڈ بھاجپا کے ہندو راشٹر کے قیام کی اصل تجربہ گاہ سمجھا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ اس پر سختی سے عمل آواری میں وہ کامیاب ہونگے یا نہیں؟یا پھر یہ دیکھا جاۓ کہ اس قانون کی مخالفت اٹھے گی یا نہیں؟اگر نہیں تو یہ سمجھا جاۓ گا کہ آگے کا راستہ ہموار ہے پھر وہ اپنے حصے کا کام کرتے چلے جائیں گے۔

 

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ یہ قانون شریعت کے بالکل عین متضاد حیثیت رکھتا ہے بھاجپا نے اس قانون کو بڑی چالاکی اور مکاری سے کچھ اس طرح ترتیب دیا کہ اس کا صرف نام یکساں ہے قانون کہیں بھی یکساں نہیں ہے چونکہ قبائلی و دیگر طبقات کو پوری طرح محفوظ بنادیا گیا تاکہ یہ اپنے حقوق کی آواز کو لے کر نہ اٹھیں بھاجپا کی یہ دوغلی پالیسی اس بات کا مظہر ہے کہ وہ صرف مسلم طبقہ کو زد میں لینا چاہتی ہے انھیں اس بات کا علم ہے کہ مسلمان شریعت میں مداخلت کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا لہذا وہ اس قانون کو براۓ نام یکساں سول کوڈ کا نام دے دیا گیا تاکہ مسلمان خاموشی سے اس کو قبول کرلے لیکن جنھیں محفوظ بنانا تھا بنادیا گیا اور جنھیں نشانہ بنانا تھا بنادیا گیا اب اتراکھنڈ میں شادی،طلاق،وراثت کے علاوہ گود لینا و دیگر معاملات سب اس نئے قانون کی رو سے ہونگے اب یہ بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے کہ ایسے میں مسلمان اور ان کی قیادت کیا کریں؟یہ بات تو عیاں ہے کہ مسلم قیادت اب قانونی جنگ لڑنے کی تیاری کررہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہاں مسلم قیادت پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حکمت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوۓ اتراکھنڈ کے مسلمانوں کو شریعت پر پابند بنے رہنے کا کوئی جواز ڈھونڈ نکالیں۔

 

دوسری طرف وقف ترمیمی بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے اتنی ہی آسانی سے منظوری دے دی جس کا قیاس بھی نہیں لگایا جاسکتاہاں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ہونے والے اجلاس اور وہاں کے حالات اس بات کا واضح اشارہ دے رہے تھے کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی ہر حال میں اس کو منظوری دینے کی تگ و دو کررہی تھی سو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکی ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کمیٹی کے صدر نشین جگدمبیکا پال جو بی جے پی کے قائد ہیں جنھوں نے اپوزیشن کی تمام 44 تجاویز کو سرے سے مسترد کرتے ہوۓ حکومت کی 14 ترامیم کو بناء چوں چرا کیئے اپنے گلے سے لگاتے ہوۓ آسانی سے قبول کرلیا یعنی کمیٹی نے اس وقف ترمیمی بل کو منظور کرواتے ہوۓ یہ ثابت کردیا کہ اب اس ملک میں عوامی راۓ کی کوئی قدر و قمیت نہیں رہے گی جس کا مطلب یہی نکلے گا کہ جمہوریت اب صرف اوراق تک سمٹ کر رہ گئی اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب حکومت کو یہ بل منظور ہی کروانا تھا تو کمیٹی کی تشکیل کیوں کی گئی؟خواہ مخواہ اس کے پیچھے وقت اور روپیہ کیوں لگایا گیا؟ بس یوں سمجھ لیجئے کہ حکومت کا ایک منصوبہ بند کام تھا وہ صرف مسلمانوں کو الجھانے اور ٹھنڈا کرنے کے لیئے اس کمیٹی کو تشکیل دیا لیکن کمیٹی نے عوامی راۓ کا بھدا مذاق بناتے ہوۓ جمہوریت کو کچل ڈالا۔

 

بہت ممکن ہے کہ اب یہ وقف ترمیمی بل کو حکومت آئندہ پارلیمانی اجلاس میں پیش کرتے ہوۓ اس کو منظور کروانے کی کامیاب کوشش کرے گی حکومت کی یہ کوشش اس وقت ہی کامیاب ہوسکتی ہے جب دو بیساکھی بھی پوری طرح سے حکومت کا ساتھ دے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ نائیڈو اور نتیش حکومت کے حامی نہیں بنیں گے کیونکہ مودی سرکار نے انھیں مفت کی ریوڑیاں کھلا کھلا کر اپنا وفادار بنا رکھا ہے لہذا قبل از وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ نتیش اور نائیڈو اس بل کی مخالفت میں کھڑے ہونگے حالانکہ اس بل کی مخالفت کرنے کے لیئے مسلم جماعتیں اور تنظیموں نے ان دونوں بیساکھیوں سے ملاقاتیں کی اور اس بل سے مسلمانوں کی اوقافی املاک کو پہنچنے والے خدشات بھی بتاۓ لیکن ان کا اصل چہرہ تو آئندہ پارلیمانی اجلاس میں سامنے آجاۓ گا کہ انھیں صرف اپنے مفادات کی فکر ہے یا عوامی مفادات کی؟لیکن انھیں اپنے سیاسی مستقبل کی بھی فکر کرتے ہوۓ فیصلہ لینا ہوگا کہ اگر آج ہم مسلمانوں کے حقوق کی بات نہیں کریں گے تو کیا آئندہ مسلمان ہمارے سیاسی رفیق بنے رہیں گے یا نہیں؟اب اس بل کو روکنے کے دو ہی راستے بچے ہیں یا تو نتیش اور نائیڈو اس کی مخالفت میں کھڑے رہیں یا مسلم قیادت قانونی راستے سے اپنے حق کی لڑائی لڑیں؟ورنہ حکومت کے لیئے راستہ تو پوری طرح صاف ہے۔

 

ایک عرصہ سے حکومت یہ جھوٹی تسلی دیتی آرہی ہے کہ وہ اس بل کے ذریعہ اوقافی اراضیات کا تحفظ کرنا چاہتی ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ حکومت کی نیت خراب ہے جن کی نظر ان اوقافی جائدادوں پر جمی ہوئی ہے چونکہ ہمارے ملک کی اوقافی جائدادیں ملکی سطح پر دولت کی نوعیت سے تیسرا بڑا مقام رکھتی ہے تو اندازہ لگایئے کہ اوقافی جائدادیں مسلمانوں کے لیئے کتنا اہم مقام رکھتی ہے حکومت کا منصوبہ ہے کہ وہ وقف بورڈ کو ہٹاکر تمام اختیارات ضلع مجسٹریٹ کے سپرد کرتے ہوۓ اپنے حکم کے تابع لانا چاہتی ہے تاکہ مسلمانوں کی اپنی جائدادوں پر سے گرفت کو ختم کیا جاسکے یہی حکمران یکساں سول کوڈ کے متعلق بھی کہتے ہیں کہ ہم کسی بھی مذہب کے ساتھ جنس، ذات پات، مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کریں گے حالانکہ سب کچھ امتیازی سلوک مذہب کی بنیاد پر ہی ہورہا ہے ان حکمرانوں کا روز اول سے ہی قول اور فعل میں زبردست تضاد رہا ہے اسی لیئے مسلمان ہی کیا اب تو ان پرہندو طبقہ کی آبادی بھی اعتماد کرنے سے بھاگ رہی ہے۔

 

ہم اور آپ اندازہ لگاسکتے کہ جو بھاجپا دو کندھوں کے سہارے حکومت چلا رہی ہے پھر بھی وہ اتنے بڑے فیصلے کیسےلے رہی ہے؟ یہ فیصلے اپنی بیساکھیوں کو اعتماد میں لیئے بناء یوں ہی آسانی سے نہیں لیئے جاسکتے پھر بھی اگر ان بیساکھیوں کو اعتماد میں لے کر اگر اس طرح کے فیصلے لیئے جارہے ہوں تو یہ بہت تشویش کی بات ہے چونکہ اس ملک کے حکمران اب اپنے آمرانہ فیصلوں کے قدم بہت تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں اور ہم یوں ہی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھیں رہیں گے تو یہ ایک ایک کرکے اپنے مشن میں آگے بڑھتے جائیں گے اور سازشوں کے پہاڑ جما دیں گے ضرورت ہے مسلم قیادت اٹھے اور قانونی و جمہوری دائرے میں اپنے حق کی آواز کو بلند کرے یہ ایک اچھی خبر آئی کہ وقف ترمیمی بل کی منظوری اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے بعد ملک کی ملی تنظیموں نے ایک تحریک شروع کرنے کا حکومت کو انتباہ دیا جو ایک مثبت پہلو ہے چونکہ تحریکیں زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے اور وقت کے ظالم حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتی ہے اس بات میں بھی کوئی دو راۓ نہیں ہے کہ حکمرانوں کی آمریت کا پانی سر سے اوپر ہوچکا ہے مسلمانوں کے صبر کے پیمانے میں اب مزید جگہ باقی نہیں رہی ظالم حکمران سمجھ رہے ہیں کہ اس ملک کے بائیس کروڑ مسلمانوں کی اس ملک میں کوئی حیثیت نہیں ہے جو چاہے ان پر ظلم کرلو یہ نہ مزاحمت کریں گے نہ رکاوٹ پیدا کریں گے اگر ایسا ہے تو یہ حکمرانوں کی غلط فہمی ہے جس دن ملک کے مسلمانوں کا ضبط صبر ٹوٹے گا وہ اپنے حقوق کی لڑائی کے لیئے میدان میں آنے دیر نہیں کرے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ اتراکھنڈ حکومت یکساں سول کوڈ کو کہاں تک چلا سکتی ہے اور وقف ترمیمی بل میں یہ دیکھنے کے قابل ہوگا کہ نتیش اور نائیڈو کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتا پاۓ گا۔

ابھی تو حکمرانوں کے طرز عمل پر بقول؎ علی سردار جعفری کے یہی کہا جاسکتا ہے

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *