[]
پٹنہ : ہندوستانی مسلمان اگر اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کر لیں اور اپنی خوبیوںکو پہچان کرصحیح طریقے سے استعمال کریں تو ان کی ترقی کے روشن امکانات ہیں۔
ان خیالات کا اظہار تلنگانہ کے سابق امیر حلقہ مولانا حامد محمد خان نے اتوار کو مقامی اقرا ءہال میں ایک خطاب عام کے دوران کیا۔
جماعت اسلامی ہند بہار کی طرف سے منعقدہ اس پروگرام میں کثیر تعداد میں موجود دانشوروں اور نوجوانوںسے خطاب کرتے ہوئے مولانا حامد نے کہا کہ ملک عزیز میں دستوری حقوق کو پامال کرنے، مسلمانوں کی مذہبی وثقافتی شناخت کو ختم کرنے، انہیں ڈرانے اور مشتعل کرنے کی لگاتار کوششیں ہو رہی ہیں۔ تاہم مسلمان اس جال میں ہرگز نہ پھنسیں ۔ انہوں نے مسلم نوجوانوں سے تعلیم کی طرف متوجہ ہونے ، پائیدار اور تعمیری کام کی منصوبہ بندی کرنے اور سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کرنے کی اپیل کی۔
مولانا حامدخان نے ملت کی قوت ، کمزوری ، خطرات اور امکانات و مواقع کا سائنسی پیمانے پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ایمانی قوت،رسول اللہ سے بے انتہا محبت، عالمی بیداری ، خاندانی نظام اور افرادی قوت جیسی خصوصیات ملت اسلامیہ میں موجود ہیں۔ دوسری طرف، مسلکی اختلاف، ادارہ جاتی زوال، مدرسہ و دیگر تعلیمی نظام کی تنزلی، وقف املاک کی لوٹ، گروہ بندی، ذات پات کا نظام جیسا منفی پہلو بھی موجود ہے۔یہ ہماری بہت بڑی داخلی کمزوریاں ہیں۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنے مثبت اور منفی پہلوو ¿ں کا موازنہ کرتے ہوئے آگے کا لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا حامد نے کہا کہ گزشتہ چند برسوںکے دوران سماج میں بے انتہا زہر گھول دئے جانے کے باوجود ابھی بھی ملک میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو سیکولر ذہن رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگ نہ صرف مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں ، بلکہ حکومت کے عوام مخالف فیصلوں اور طریقہ عمل کی تحریری اور تقریری طور پر شدید نکتہ چینی اور تنقید کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی ضرورت ہے۔
تلنگانہ کے سابق امیر حلقہ نے کہا کہ دین اور دنیا کوالگ الگ خانوں میں بانٹ کر زندگی گزارنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا ایک مسلمان کی طرز زندگی مسجد میں الگ اور بازار میں الگ نہیں ہو سکتی ہے۔دونوں کا مربوط ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح، مسلمان کا کردار بھی اسلام میں بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ اس میں ایمانداری، تقویٰ اور خوف خدا ہونا چاہئے۔
اس موقع پر جماعت اسلامی ہند ، بہار کے امیر حلقہ مولانا رضوان احمد اصلاحی نے کہا کہ ملت میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ ،جو حالات کے پیش نظر متفکر ہیں لیکن کوئی خاکہ موجودنہ ہونے کی وجہ سے کچھ کر نہیں پار ہے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں، جو حالات کے تئیں نہ تو سنجیدہ سوچ رکھتے ہیں اور نہ ہی ان میں کچھ کرنے کر فکرمندی ہے۔
لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں طرح لوگ مل بیٹھ کر عملی پروگرام بنائیں ۔مضبوط اجتماعیت اور مضبوط قوت ارادی کے ساتھ کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم داعی امت ہیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کے لئے نہیں آئے ہیں۔ ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرکے ہی ہم شاندار مستقبل کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔