نئی دہلی: وقف ترمیمی بل پر پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ میں جمعہ کے روز شدید ہنگامہ ہوا۔ اپوزیشن اراکین نے الزام لگایا کہ انہیں مجوزہ ترمیمات کا مطالعہ کرنے کے لیے مناسب وقت نہیں دیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے سینئر رہنما جگدمبیکا پال کی سربراہی میں وقف ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کی میٹنگ میں کشمیر کے مذہبی رہنما میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں ایک وفد کے خیالات سنے جانے تھے۔ میرواعظ کو بلانے سے پہلے کمیٹی کے اراکین کے درمیان تبادلہ خیال ہوا، جس دوران اپوزیشن اراکین کے ساتھ ہنگامہ شروع ہو گیا۔
اپوزیشن اراکین نے الزام لگایا کہ بی جے پی دہلی اسمبلی انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے وقف بل کی رپورٹ جلد از جلد منظور کرانا چاہتی ہے۔ تیز بحث کے دوران میٹنگ کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔ ترنمول کانگریس کے رکن کلیان بنرجی اور کانگریس کے سید ناصر حسین میٹنگ چھوڑ کر باہر نکل آئے۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کی کارروائی تماشا بن گئی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجوزہ ترامیم پر تفصیلی بحث کے لیے 27 جنوری کو ہونے والی میٹنگ کو 30 یا 31 جنوری تک مؤخر کیا جائے۔
بی جے پی رکن نشیکانت دوبے نے اپوزیشن اراکین کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا رویہ پارلیمانی روایات کے خلاف ہے اور وہ اکثریتی رائے کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے قبل میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ وہ وقف ترمیمی بل کی سخت مخالفت کرتے ہیں اور مذہبی معاملات میں حکومت کی مداخلت کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا، “ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے مشورے سنے جائیں گے اور ان پر عمل کیا جائے گا تاکہ ایسا کوئی اقدام نہ اٹھایا جائے جس سے مسلمانوں کو یہ احساس ہو کہ انہیں بے اختیار کیا جا رہا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ وقف کا مسئلہ خاص طور پر جموں و کشمیر کے لیے ایک حساس معاملہ ہے، کیونکہ یہ ایک مسلم اکثریتی خطہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ حکومت وقف امور میں مداخلت سے گریز کرے۔”
جے پی سی نے حالیہ مہینوں میں ملک بھر کے مختلف ریاستوں میں ملاقاتیں کرکے وَقْف کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا ہے۔ اب تک جے پی سی کی 34 میٹنگز ہو چکی ہیں، جن میں 107 گھنٹے سے زیادہ وقت بحث میں صرف ہوا۔
یہ توقع کی جا رہی ہے کہ 27 جنوری سے کمیٹی بل کی رپورٹ کے مسودے پر ترتیب وار بحث شروع کرے گی اور فروری کے پہلے ہفتے میں اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کر دے گی۔
ہندوستان میں 30 وقف بورڈز ہیں، جو 9 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی پر محیط ہیں، جن کی تخمینی مالیت 1.2 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ ہندوستانی ریلوے اور دفاعی وزارت کے بعد ملک میں سب سے زیادہ زمین وقف بورڈ کے پاس ہے۔ اپوزیشن نے بل میں شامل چند تجاویز پر اعتراض کیا ہے، خاص طور پر ضلع کلکٹرز کو متنازعہ اراضی کے معاملات میں فیصلے کا اختیار دینے اور غیر مسلموں کو وَقْف بورڈ کے رکن کے طور پر شامل کرنے کی شق پر سوال اٹھایا گیا۔