مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، انصاراللہ یمن کے سیکرٹری جنرل سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان ایک اہم پیشرفت ہے۔ صہیونی حکومت اور امریکہ غزہ میں مہینوں کی خوفناک جارحیت کے باوجود مقاومت کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوگئے اور جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور امریکہ نے غزہ میں نسل کشی کے لیے واضح اہداف مقرر کیے اور انہیں حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ نتن یاہو نے امریکہ کی مکمل شراکت سے فلسطینی عوام کے خلاف 4050 سے زیادہ جرائم کا ارتکاب کیا۔
الحوثی نے عرب اور اسلامی دنیا کی بے حسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پر اس جارحیت کے دوران امریکہ نے صہیونی دشمن کو مکمل حمایت فراہم کی اور اسے وسیع پیمانے پر تباہ کن ہتھیار مہیا کیے۔ صہیونی حکومت نے غزہ کے عوام پر ہزاروں ٹن دھماکہ خیز مواد گرایا۔ اس پورے عرصے کے دوران عرب اور اسلامی ممالک نے فلسطینیوں کی مدد نہیں کی بلکہ بعض عرب ممالک نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔
انہوں نے غزہ کے مجاہدین، خاص طور پر القسام اور القدس بریگیڈز کی استقامت کو سراہتے ہوئے کہا کہ صہیونی حکومت اپنی تمام تر فوجی طاقت اور جدید ترین انٹیلیجنس کے باوجود غزہ کی مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام رہی۔ غزہ کی مظلومیت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ غزہ کے عوام کی قربانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا کہ صہیونی حکومت غزہ میں مزاحمت کو محاصرے میں رکھنے اور وسائل سے محروم کرنے کے باوجود ناکام ہو گئی۔ دشمن نے امریکہ کی شراکت سے جنگ کے نتائج کو اپنے حق میں موڑنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ایمان کی قوت، ارادہ، جرات، قربانی کے لیے آمادگی اور فلسطینی قوم کی بے مثال بہادری نے اسرائیل اور امریکہ کو غزہ میں ناکام بنا دیا۔
انصاراللہ کے اعلی رہنما نے کہا کہ حماس نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کی خواہش کے مطابق سیاسی موقف اختیار کیا۔ حماس نے امریکہ، مغربی ممالک اور کئی عرب حکومتوں کے دباؤ کے باوجود اپنے سیاسی موقف پر استقامت کا مظاہرہ کیا۔ حماس کی مسلسل استقامت کے نتیجے میں امریکیوں نے عقب نشینی اختیار کی۔ اسرائیل اور امریکہ کو اس جارحیت، جرائم، ظلم اور قتل و غارتگری کے بعد جو واحد نتیجہ ملا وہ صرف شکست ہے۔ 15 ماہ کی یہ جنگ صرف فلسطین تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ پوری امت کے خلاف جنگ تھی۔ یہ فلسطینی عوام کی تاریخ کے نمایاں ترین دور میں سے ایک شمار ہوگا جس میں ان کی استقامت اور قربانیاں ماضی کے تمام ادوار سے زیادہ نمایاں ہیں۔
بدرالدین الحوثی نے کہا کہ اقوام متحدہ کو صہیونی ریاست کو تنظیم سے نکال دینا چاہیے کیونکہ اسرائیل کی موجودگی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ اس پورے عرصے کے دوران عالمی اداروں اور عالمی برادری کا کردار شرمناک رہا۔
الحوثی نے عرب ممالک کی کمزوری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر عرب ممالک کم از کم اسرائیل کے خلاف سیاسی اور اقتصادی پابندیاں عائد کرتے اور فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے ضروری اقدامات اٹھاتے تو تمام اسلامی ممالک ان کے ساتھ شامل ہو جاتے۔ عرب ممالک کی بے عملی کا اثر دیگر اسلامی ممالک پر بھی ہوا۔ طوفان الاقصی کے آغاز سے ہی کچھ عرب حکومتوں نے صہیونی حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ نے اس عرصے میں وہ کام کیا جو امت نے کسی بھی دوسرے محاذ یا علاقے میں نہیں کیا۔ حزب اللہ اور اس کے رہنما، شہید اسلام و انسانیت سید حسن نصر اللہ، نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ حزب اللہ کے اعلی رہنماؤں، کارکنوں اور مجاہدین نے بڑی شہادت پیش کی اور اسرائیل کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ عراقی مقاومت نے بھی فلسطینی عوام کی حمایت میں اچھا کردار ادا کیا۔
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا کہ غزہ اور فلسطین کی حمایت میں یمن کے واضح موقف نے دنیا کو حیران کردیا ہے۔ کسی کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ یمن کا موقف اس قدر موثر اور طاقتور ہوگا، خاص طور پر جب یہ فلسطین کے علاقوں پر بمباری اور سمندری حملوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ہم نے 1255 بیلسٹک، کروز اور ہائپر سونک میزائلوں، ڈرون طیاروں اور جنگی جہازوں کے ذریعے اسرائیل مخالف کارروائیاں کیں۔ غزہ کی حمایت میں کی جانے والی یہ کارروائیاں ہمارے عوام کی سخت معاشی اور دفاعی مشکلات کے باوجود انجام پائیں۔