اردو زبان کے تحفظ کے لیے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ڈاکٹر سید تقی عابدی

رپورٹ: – عبد الرحمن مرزا بیگ 

جدہ، سعودی عرب

اُردو زُبان ایک ایسی زُبان ہے کہ جسکی تاریخ اگر دیکھی جائے تو حضرت خواجہ مُعین الدین اجمیریؒ کی شاعری میں ملنے والے کچھ الفاظ سے بھی ملتی ہے ۔ لیکن اُردو زبان کی جڑیں مغلیہ دور میں مضبوط ہوئی۔ قلی قطب شاہ نے اُردو زبان کو جس طرح پروان چڑھایا اُسکی نظیر نہیں ملتی ‘ اُسی دور سے اُردو عوام و خواص میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئی ۔ یہاں تک کہ مغل بادشاہوں کے دور میں اُردو زبان کو سرکاری اور درباری زبان کا درجہ حاصل ہوا۔ اُردو زبان کا ایک طویل اور دلچسپ سفر ہے جو برصغیر کی تہذیب، ثقافت اور تاریخ کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔

 

اس زبان کی تاریخ کو کئی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ انگریزوں کے دور میں اُردو اور ہندی کے درمیان فرق بڑھا دیا گیا۔ اُردو نے آزادی کی تحریکوں میں کلیدی کردار ادا کیا اور یہ زبان مسلمانوں کے لیے شناخت کا ذریعہ بنی اور تاریخِ آزادی اُٹھاکر دیکھی جائے تو پتہ چلے گا کہ سب سے زیادہ آزادی کے نعرے اور آزادی پر لکھنے جانے والے اشعار اُردو زبان میں ہی لکھے گئے۔ موجودہ دور میں اُردو کو تعلیمی نظام میں خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جا رہی۔ انگریزی زبان کے فروغ نے اُردو کی تعلیم کو پس منظر میں ڈال دیا ہے، جس کی وجہ سے نئی نسل میں اُردو کی مہارت کم ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی رومن اُردو کا رجحان زبان کی روایتی تحریری شکل کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔

 

اُردو ادب کی تخلیق کم ہو گئی ہے، مگر کچھ ادیب اور شاعر اب بھی اس کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے مشاعروں اور ڈراموں میں پائی جانے والی بعض خرابیوں کو خوبیوں میں بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل کو شاعری اور کہانیاں لکھنے اور اُسکو عوام الناس میں پیش کرنے کا صحیح موقع مل سکے اور اس طرح کے قلمکاروں کی ہمت افزائی کی ضرورت ہے ورنہ یہ نوجوان نسل جو ہمارا اثاثہ ہے اُردو کو خیرباد کہہ دیں گے اور ہم صرف افسوس کرتے رہ جائینگے ۔ اُردو زبان کا مستقبل انفرادی اور اجتماعی کوششوں پر انحصار کرتا ہے ، جہاں نئی نسل کو اس زبان کی اہمیت اور خوبصورتی سے روشناس کرایا جائے اور اسے جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے وہیں اُردو زبان کو ڈیجیٹلائز کرنے اقدامات کئے جائیں اور بچوں کو اُردو سے جوڑنے کے لئے جدید ٹکنالوجی کا بھرپور فائدہ اُٹھایا جائے اُنہیں ہر طرح سے اُردو زبان سے جُڑنے کے موقعہ فراہم کئے جائیں ۔

 

ویسے تو اُردو زُبان کی کو آگے بڑھانے میں حصہ لینے والوں میں ہمیں بڑے بڑے نام ملتے ہیں لیکن ساتھ ہی دکن کے نظام اور جامعہ عثمانیہ کا اُردو زبان کو مزید مضبوط بنانے میں اہم کردار رہا ہے ۔ جامعہ عثمانیہ جو ہندوستان کی اوّلین اُردو یونیورسٹی ہونے کا اعزاز رکھتی ہے ، اُسکا مکمل نصاب و تعلیم اُردو زبان میں ہی ہوا کرتی تھی لیکن آزادی ہند کے بعد ایک سازش کے تحت اُردو زبان کو پسِ پُشت ڈالدیا گیا۔ اِن خیالات کا اظہار شہرہ آفاق ہندوستانی نژاد کنیڈین طبیب ، ادیب،مصنف و نقاد ،خطیب و صحافی اور معروف دانشورو شاعرڈاکٹر سید تقی عابدی نے ولیج رسٹورینٹ حی العزیزیہ جدّہ میں اظہار اُردوٹوسٹ ماسٹرس کلب جدہ اور فرینڈس آف حیدرآبادجدّہ کی جانب سے منعقدہ ادبی نشست کے موقع پر کیا۔

 

مولانا حافظ محمد نظام الدین غوری صدر بزمِ طلبائے قدیم ومحبانِ جامعہ نظامیہ جدّہ نے مصری لہجہ میں قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہوئے سامعین کے دِلوں کو آیاتِ قرآنی کی حلاوت سے محظوظ کیا۔ جبکہ جناب سید محمد خالد حُسین مدنی نائب صدر اُردو اکیڈمی جدہ نے اپنی مسحور کُن آواز میں نعتِ شریف پیش کرکے سماں باندھ دیا۔ اس نشست کے نظامت کے فرائض جدّہ کی ادبی مجالس کے سب سے کامیاب اور پسندیدہ ناظم جناب اسلم افغانی نے انجام دئیے جن کی نظامت ہی مجالس کی کامیابی کا ایک اہم حصّہ ہوا کرتی ہے ۔ ممتاز صحافی عبد الرحمن مرزا بیگ (انگریزی، اردو اور عربی زبان ک ماہر) نے ابتدائیہ پیش کیا۔ ممتاز شاعر و ادیب جناب مہتاب قدر صاحب نے خطبہ استقبالیہ پیش کئے۔ مشہور سعودی تاجران اور اُردو زُبان کے محب و ہمدرد جناب عبدالقدیر حسن صدیقی اور جناب محمد عبدالرحیم یحی منشی نے بحیثیتِ مہمانانِ اعزازی شرکت کی۔

 

فرینڈز آف حیدرآباد اور اظہار اردو ٹوسٹ ماسٹرس کلب کی جانب سے ڈاکٹر سید تقی عابدی کو تعریفی تختی اور تحفہ دیا گیا۔ اسے مہمان خصوصی عبدالقدیر صدیقی اور عبدالرحیم منشی نے پیش کیا۔اس موقع پربزم عثمانیہ یونیورسٹی کے صدرجناب عارف قریشی عثمانیہ یونیورسٹی کی 100 سالہ ساوینئر یادگار پیش کیا، اُردو اکیڈمی جدّہ کے وفد کی جانب سے اکیڈمی کی بھی ساوینئر پیش کی گئی ۔ ڈاکٹر عبدالواسع کی ایمبریالوجی پر کتاب بھی ڈاکٹر تقی عابدی کو دی گئی۔اس ادبی نشست کے شرکاء علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن جدہ، خاک طیبہ ٹرسٹ، اردو اکیڈمی جدہ، اردو گلبن، بزم عثمانیہ، بزم اتحاد جدہ، خواجہ بندہ نواز اولڈ بوائز ایسوسی ایشن جدہ اوراقبال اکیڈمی جدہ* تھے جن کے تعاون سے یہ تقریب منعقد کی گئی۔

 

اس تقریب میں شہر جدہ کے اردو سخن فہم لوگ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس ادبی نشست کے آغاز سے قبل ایک پرتکلف عشائیہ دیا گیا۔آخر میں فرینڈز آف حیدرآباد کے جنرل سکریٹری عمران کوثر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اس نشست کے اختتام کا اعلان کیا ۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *