[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سینیٹ سے منظور شدہ فوجداری ترمیمی بل 2023 کے خلاف جامعہ امام صادق اسلام آباد میں علماء و ذاکرین کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں مکتبِ تشیع کے بزرگ قائدین، علماء کرام و ذاکرین نے شرکت کی اور اس بل کو مسترد کرتے ہوئے باضابطہ احتجاج کا اعلان کیا۔ کانفرنس سے امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کانفرنس کے دن کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کی تاریخ کا ایک عظیم دن ہے جس میں ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے پاکستان کے طول و عرض میں موجود تمام موالیانِ حیدرِ کرارؑ کو متحد کر کے ان کی نمائندگی میں ایک جگہ جمع کیا ہے۔ میں کانفرنس میں موجود تمام بزرگ علماء کرام، مذہبی جماعتوں، تنظیموں اور ذاکرینِ عظام کا شکر گزار ہوں جنہوں نے آج کے اس اجتماع کو کامیاب بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ آج کا دن ایک نکاتی ایجنڈے پر بات کرنے، دشمن کو للکارنے اور اپنی صفوں میں اتحاد کے ذریعہ اُس کے جبڑے پر مکا مارنے کا دن ہے۔ یہ دن اختلافی موضوعات پر بات کرنے کا دن نہیں، ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ڈومین میں رہ کر بات کرنی چاہیے۔ آج ہم سب کا مشترکہ ایشو ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا دفاع اور عزاداری سید الشہداء کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مل کر مقابلہ کرنے اور اپنے امتیازات اور اختلافات کو ایک طرف رکھ کر متحد ہونے کا پیغام ہے۔ لہذا ایسی گفتگو جس کا تعلق اس اجتماع سے نہیں، گریز کرنا ضروری ہے۔ آج کے اجتماع میں ذاکرینِ عظام کو علماء کرام کی طرح اہمیت دی گئی ہے۔ محترم ذاکرین کا کام امام حسین علیہ السلام کی محبت کو قلوب میں شعلہ ور کرنا اور معاشرہ کو دین کے مطابق چلا کر اسے امام زمان عجل اللہ فرج سے متصل کرنا علماء کرام کی ذمہ داری ہے۔ لہذا ان دونوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔ معمولی اختلافات کو ایک طرف رکھنے کے بعد ہی ابوجہل کی اولاد کو شکست دینا ممکن ہے۔ اس وقت ہمارے مقابل ابوجہل اور ابولہب کی اولاد ہے لہذا ان امور کو چھیڑنا خود اپنی جگہ غلطی ہے جس سے قوم کے اندر دوبارہ انتشار پیدا ہو۔ جہاں تک عقائد کا تعلق ہے تو ہر شخص اپنے عقیدہ میں آزاد ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ عقیدہ وہی ہے جو قرآن، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ اور ان کی آل ہمیں دیں۔ نہ اس سے آگے اور نہ پیچھے، یہی ہمارا مشترکہ عقیدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کا یہ اجتماع ہمیں آپس میں جوڑنے کے لیے ہے کیونکہ دشمن نے اب ایسا وار کیا ہے کہ شاید فوری طور پر ہم اس کی گہرائی کا ادراک نہ کر سکیں۔ یاد رکھیے! نبی کریمؐ کے بعد امویوں نے جو سلوک اہلِ بیت علیہم السلام کے ساتھ کیا، آج شیعہ قائد کے بنائے گئے ملک میں پاکستانیوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ متنازعہ فوجداری ترمیمی بل قائد اعظم کے جانشینوں کو پاکستان میں آئیسولیٹ کرنے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔ اس کے رد عمل میں کوئی بھی شیعہ خاموش نہیں رہ سکتا، وہ آگے بڑھے گا اور ہر صورت میں مقابلہ کرے گا۔ یہ بل اچانک نہیں آیا۔ گذشتہ تمام عرصہ میں تشیع کو بیورو کریسی میں سے آہستہ آہستہ نکالا گیا، بعد میں نصاب سے تشیع کے عقائد، نظریات اور اسلامی ہیروز کے نام کھرچ کھرچ کر نکالنے اور ایسا نصاب مرتب کرنے کی کوشش کی گئی کہ جس میں اہل بیتؑ نہ ہوں اور ان کے علاوہ جس کا بھی نام آئے تو کوئی بات نہیں۔ اب اس سازش کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ ناموس صحابہ و اہل بیت علیہم السلام کے نام پر خوبصورت نعروں اور ٹائٹل کے ساتھ فتنہ و فساد پر مبنی بل منظور کرایا جائے۔ لیکن سب کو پتا ہے کہ اس بل کے پیچھے جو فکر ہے، وہ نجس ہے۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ بل کو قومی اسمبلی میں چور ڈاکوؤں کے انداز میں پیش کیا گیا۔ 380 اراکین پر مشتمل پارلیمنٹ کے صرف 8 اراکین نے بل پیش کیا۔ اسی طرح سینیٹ کے 25 اراکین کو مسودہ دکھائے بغیر بل منظور کرا لیا گیا۔ ایسے متنازعہ بل کو پوری قوم جوتے کی نوک پر رکھتی ہے۔ ہم بے غیرت نہیں ہیں۔ ہم نے پاکستان میں کم از کم 26 ہزار بے گناہ افراد کی لاشیں اٹھائی ہیں لیکن کبھی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔ ایسا قانون جسے پیش کرنے والے چور ہوں، ہم ایک لمحہ کے لئے بھی اسے قبول نہیں کر سکتے۔ اس بات کے ابھی سے آثار نظر آ رہے ہیں، کوئی یزید کو رحمت اللہ علیہ کہ رہا ہے تو کوئی اسے اپنے مقدسات میں شمار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے گھرانے کا فرد بتاتا ہے۔ یہ آغاز ہے، سیلاب کے پانی کو بند باندھ کر روکا نہ جائے تو پوری آبادی زیرِ آب آ جاتی ہے۔ اور یہ وہی ابتدا ہے۔ اگر آپ سب آمادہ رہے تو کوئی مائی کا لال اس بل پر عمل درآمد نہیں کرا سکتا۔ میں نے پورے پاکستان میں گوادر سے لے کر گلگت بلتستان تک جائزہ لیا ہے۔ میں یہ بات بلامبالغہ کہہ رہا ہوں کہ اِس وقت پاکستان کے ہر علاقہ میں جہاں ”علی ولی اللہ“ کہنے والا شخص موجود ہے، اپنا سر دینے کو تو تیار ہے لیکن اِس متنازعہ بل کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ میں اپنے تمام قائدین، علماء کرام اور بزرگوں سے یہ گزارش کروں گا کہ آج اس قوم کو ایک ایسا لائحہ عمل دیں کہ جس کے نتیجہ میں باتیں، نعرے اور دھمکیاں نہ ہوں بلکہ قوم کو احتجاج کا وقت دیں، جگہ بتائیں اور کہیں کہ جب تک ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جاتا اس وقت تک ہم گھروں کو لوٹ کر نہیں جائیں گے۔