تلنگانہ میں عنقریب اسمبلی انتخابات‘ سیاسی ماحول گرم

[]

حیدر آباد: تلنگانہ میں سیاسی ماحول گرماتا جارہا ہے۔ اسمبلی انتخابات میں ابھی تین تا چار مہینوں کا عرصہ باقی ہے۔ بی آر ایس کا ادعا ہے کہ اس کو مسلسل تیسری مرتبہ اقتدار حاصل ہونا طئے ہے۔ کانگریس کو یقین ہے کہ اب کی بار اقتدار پر واپسی ہوگی، اور بی جے پی کا احساس ہے کہ ریاست میں ڈبل انجن سرکار بنے گی۔

 اپنی اپنی کامیابی کے لئے تینوں جماعتیں بی آر ایس، کانگریس اور بی جے پی، حکمت عملی اور لائحہ عمل تیار کرنے میں مصروف ہے، بی آر ایس قیادت کا کہنا ہے کہ کانگریس سے ان کا مقابلہ ہی نہیں ہے اور بی جے پی میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ بی آر ایس کو اقتدار برقرار رکھنے سے روک سکے۔

 تاہم سیاسی مبصرین کا احساس ہے کہ کے سی آر کو بخوبی احساس ہے کہ کانگریس اور بی جے پی اسمبلی انتخابات میں خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا ماننا ہے کہ دو میعاد تک حکمرانی کرنے کے بعد اب قوی امکان ہے کہ عوامی ناراضگی کا سامنا ہوسکتا ہے اور اس مسئلہ پر بی آر ایس قائدین کے سروں پر خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں۔

 پارٹی قائدین کا کہنا ہے کہ تھوڑا سا بھی فرق اقتدار سے محروم کرسکتا ہے۔ اِسی خوف کے درمیان پارٹی کی جانب سے عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے مکمل کوشش کی جارہی ہے۔

اِسی سلسلہ کے تحت آر ٹی سی ملازمین کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے سرکاری ملازمین قرار دیا گیا۔ کسانوں کے قرض کی معافی، بے گھر افراد میں ڈبل بیڈروم مکانات کی تقسیم، اراضی کے حامل غریب عوام کو گروہا لکشمی کے تحت مالی مدد فراہم کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے۔

 دوسری طرف زمینی سطح پر بی آر ایس کے خلاف عوام میں ناراضگی میں اضافہ اور ہمدردی میں کمی سے بھی بی آر ایس قیادت خدشات کا شکار ہے۔ پارٹی کارکنوں کا کہنا ہے کہ چند سرکاری اسکیمات میں خود اراکین اسمبلی کے ملوث ہونے سے پارٹی اُمیدواروں کی کامیابی کے امکانات کافی کم ہوتے جارہے ہیں۔

پارٹی قیادت نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ تقریباً موجودہ اراکین کو ہی اُمیدوار بنایا جائے گا۔ مگر سروے رپورٹس کے چند اراکین کے خلاف عوام میں سخت ناراضگی پائی جارہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِن قائدین کو ٹکٹ دینا خطرے سے خالی نہیں ہے۔

 بی آر ایس کی جانب سے مسلسل سروس کراتے ہوئے عوام کی نبض جاننے اور موزوں اُمیدوار تلاش کرنے کی کوشش جاری ہے مگر ساتھ ہی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوجانے والوں کی ناراضگی کو دور کرتے ہوئے اُن کے لئے متبادل فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

دوسری طرف ہر گزرتے دن کے ساتھ کانگریس حلقوں میں جوش و خروش بڑھتا جارہا ہے۔ پارٹی کا ’نعرہ ایک موقع‘ عوام کو اپنے طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔

 کانگریس کی جانب سے 2018 میں اُمیدواروں کے انتخاب میں ہوئی کوتاہیوں کو دور کرتے ہوئے مضبوط اُمیدواروں کے انتخاب پر ساری توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ چونکہ ٹکٹ کے دعویداروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کانگریس سروے رپورٹس پر انحصار کئے ہوئے ہے۔

 گزشتہ دنوں کانگریس کو پیش کردہ سروے رپورٹ کے مطابق جملہ 119 حلقوں میں کانگریس کو بہ آسانی 41 حلقوں پر کامیابی ہوگی۔ پارٹی کی جانب سے 18 اگست سے دعویداروں سے درخواست قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اِن درخواستوں کو اسکریننگ کمیٹی کے حوالہ کیا جاسکے۔

کانگریس دو نکاتی انتخابی مہم چلاتے ہوئے اقتدار پر واپس آنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جو تشکیل تلنگانہ کانگریس ہی کا کارنامہ، بی آر ایس و بی جے پی ایک ہی سکہ کے دو رخ ہونے کے متعلق ہے۔

کرناٹک اسمبلی انتخابات میں شکست اور تلنگانہ بی جے پی قیادت میں تبدیل کے بعد بی جے پی حلقوں میں مایوسی پھیل گئی تھی مگر اب جی کشن ریڈی کی قیادت میں بی جے پی دوبارہ مستحکم ہوتی نظر آرہی ہے۔

مختلف پروگرامس کے ذریعہ عوام میں جانے، حکمران بی آر ایس کی ناکامیوں کو اُجاگر کرنے اور کانگریس و بی آر اس کے درمیان خفیہ ساز باز کو عوام کے سامنے رکھا جارہا ہے۔

 پارٹی کارکنوں میں جوش بھرنے کے لئے پارٹی کے اعلیٰ قائدین بشمول امیت شاہ کے دورہ کا منصوبہ ہے۔ پارٹی اگست کے اواخر تک 30 تا 40 اُمیدواروں کے ناموں کی پہلی فہرست جاری کرنا چاہتی ہے۔ دیکھنا ہے کہ کس جماعت کا منصوبہ اور لائحہ عمل عوام کو پسند آئے گا۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *