[]
وجئے ودروہی
راجستھان میں وزیر اعلی اشوک گہلوت کے مبینہ سیاہ کارناموں پر مشتمل ایک سرخ ڈائری خبروں میں ہے۔ خود وزیر اعظم مودی نے سیکر کی ریلی میں لال ڈائری کا ذکر کرکے مقامی لیڈروں کو ٹول کٹ دی ہے۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے 500 روپے میں گیس سلنڈر دینے کے اپنے منصوبے کو سرخ ڈائری کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی جی کو لال سلنڈر، لال ٹماٹر اور ان لوگوں کو جواب دینا چاہیے جو اس کی وجہ سے لال ہو رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لال ڈائری کے معاملے پر گہلوت کو سچن پائلٹ کی حمایت بھی حاصل ہے، جن کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پاس کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس لیے وہ غیر ضروری ایشو اٹھا رہی ہے۔
چینل کے سروے میں 46 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ کانگریس ایم ایل اے راجندر گڈھا کو لال ڈائری سے فائدہ ہو گا، جب کہ 45 فیصد لوگوں کی رائے اس کے برعکس ہے۔ جہاں بی جے پی لال ڈائری کے بڑے کٹ آو¿ٹ کے ساتھ مورچے نکال رہی ہے وہیں کانگریس نے راجندر گڈھا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر معلوم ہوا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیوں نے لال ڈائری کا سراغ لگانا شروع کر دیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ راجندر گڈھا کابینہ سے نکالے جانے کے بعد بھی لال ڈائری کا راز سامنے نہیں لا رہے ہیں، بی جے پی کا کہنا ہے کہ کانگریس کی شکست کے بعد ہی سرخ ڈائری کا راز سامنے آئے گا۔
کہانی 2020 کی ہے۔ یہ سچن پائلٹ کی بغاوت کا وقت تھا۔ ای ڈی نے جے پور میں اشوک گہلوت کے قریبی راجستھان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے صدر دھرمیندر راٹھوڈ کے گھر پر چھاپہ مارا۔ گہلوت نے گڈھا سے کہا کہ وہ کسی بھی قیمت پر راٹھوڈ کے گھر سے لال ڈائری لے آئیں۔ گڈھا کا جال کاٹ کر راٹھوڑ کے گھر پہنچنا، تفتیشی ایجنسیوں کے افسران اور نیم فوجی دستوں کے جوانوں کے درمیان سے سرخ ڈائری نکال لانا، باہر آکر گہلوت کو فون کرنا، گہلوت کا ڈائری جلانے کا حکم دینا، گڈھا کا ڈائری اپنے پاس رکھ لینا، تین سال بعد، منی پور تشدد پر کانگریس کے مظاہروں کے درمیان گڈھا کا اپنی ہی حکومت کو اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دینا، گہلوت کا انہیں کابینہ سے نکال برخاست کردینا۔ اگلے ہی دن اچانک گڈھا کا اسمبلی میں ڈائری کو لہرادینا اور دعویٰ کرنا کہ اس میں 500 کروڑ روپے کے راز درج ہیں، اسپیکر کا روکنا ٹوکنا، کانگریس ارکان اسمبلی کے سے رسہ کشی کے درمیان سرخ ڈائری کو پھاڑنا۔ گڈھا کا اس کی فوٹو اسٹیٹ کاپی پریس کو دکھا دینا۔ پوری کہانی خاصی دلچسپ ہے۔ اس میں جھول ہی جھول ہیں۔
کیا گہلوت سرخ ڈائری میں اپنے راز درج کریں گے؟ کیا آپ ڈائری کو کہیں چھپا کر رکھنے کے بجائے اپنے ساتھی کے حوالے کریں گے؟ کیا گڈھا کے ”جلا دی صاحب“ کے جواب پر یقین کریں گے؟ گڈھا لال ڈائری کا راز سینے سے چپکائے کیوں گھوم رہے ہیں؟ تفتیشی ایجنسی نے چھاپے کے دوران ریڈ ڈائری قبضے میں کیوں نہیں لی؟ گڈھا لے گئے تو ایف آئی آر درج کیوں نہیں کی؟ کیا گڈھا نے ثبوت کو تباہ کرنے یا چھپانے کا جرم کیا ہے؟ مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ڈائری میں دراصل وسندھرا راجے حکومت میں ہوئے گھٹالوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن مودی جی کو مزا آرہا ہے۔ بیٹھے بٹھائے گہلوت حکومت کے کرپشن کے خلاف ایشو مل گیا ہے۔ گہلوت کو مودی پر مہنگائی روکنے میں ناکام ہونے کا الزام لگانے کا بہانہ مل گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا لال ڈائری مودی کو راجستھان اسمبلی انتخابات کی جیت اور اس کے بعد لوک سبھا کی سبھی25 سیٹیں دلوانے میں کامیاب ہوگی؟
ویسے ایک بات بے حد دلچسپ ہے۔ کمل چھاپ والوں کو زعفرانی رنگ بہت پسند ہے اور وہ سرخ رنگ سے سب سے زیادہ چڑتے ہیں، سرخ پرچم والی پارٹی انہیں پھوٹی آنکھ نہیں بھاتی، لیکن ان دنوں وہ سرخ رنگ کی ڈائری کے صفحات کو کمل کے پھولوں سے سجانے میں مصروف ہیں۔ ہاتھ والوں کو اگر لگتا ہے کہ ان کی گہلوت حکومت بالکل سفید ہے، کوئی کالا دھبہ نہیں ہے، تو لال ڈائری کیوں لال پیلی ہو رہی ہے؟ وہ ڈائری کھولنے کی بات کیوں نہیں کرتی؟ 70 سال حکومت کرنے والی کانگریس سے بہتر کون جانتا ہے کہ ڈائری کی اہمیت صرف ڈائری کے بند ہونے تک ہے۔ ڈائری کھل گئی تو حروف ہوا میں اڑ جاتے ہیں اور ہاتھ میں صرف گتے کی جلد رہ جاتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ حتیٰ کہ ایمرجنسی کی صورت میں بیت الخلاءمیں صفحہ تو پھر بھی کام کا ثابت ہوتا ہے لیکن گتے کی جلد نقصان زیادہ پہنچاسکتی ہے۔ جین ڈائری نوے کی دہائی میں موضوع بحث بنی تھی۔ جین حوالہ معاملہ اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راو¿ کے لیے درد سر تھا لیکن یہ درد اتنا طویل رہا کہ درد ہی دوا بن گیا۔ ”مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہوگئی“ کی طرز پر۔
جن لیڈروں کے نام جین برادران کی کوڈڈ ڈائری میں درج تھے وہ سب زد میں آگئے کیونکہ یہ تاثر دینے کے لیے جین ڈائریوں کے نام لیک کرنا ضروری ہوگیا تھا کہ ”سیاسی ہولی میں کرپشن کے سات رنگوں میں سبھی پارٹیاں اور لیڈر ایک ساتھ ہیں۔ “ اڈوانی جی نے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ بعد میں وہ واپس آئے، ملک کے وزیر داخلہ بھی بنے، لیکن ہندوستان کا سب سے بڑا اور طاقتور پولیس والا بھی تب جین ڈائری کو بے نقاب نہ کر سکا۔ سیاست کا حصہ بننے والی ڈائری کا اپنا الگ جلال ہوتا ہے۔ یہ بات پھر ثابت ہوگئی۔
کیا ان دنوں کوئی ڈائری رکھتا ہے؟ لکھتا ہے کیا؟ لالہ جی نے بھی لال رنگ کے بہی کھاتے لیپ ٹاپ میں بدل دیے۔ سرکاری دفاتر میں ریڈ ٹیپ فائلیں ای فائلیں ہورہی ہیں، لیکن اس دوران کچھ فائلیں فلمائی گئی ہیں۔ کچھ فلمی فائلیں منظر عام پر آنا شروع ہو گئی ہیں جن کا سیاسی جماعتیں اپنی سہولت کے مطابق فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ کچھ کشمیر کی فائلیں بنا کر کروڑوں کماتے ہیں تو کچھ گجرات کی فائلیں بنانے کی دھمکی دے کر کمائی کے امکانات تلاش کرنے لگتے ہیں۔ ویسے ای فائلز اور لیپ ٹاپ کے دور میں بہت عرصے بعد ایک سرخ ڈائری منظر عام پر آئی ہے۔ اس پر سیاست ہوتی رہے گی، میڈیا سرخ ڈائری کے راز پر اسرار کی پرتیں ڈالتا رہے گا، سرخ ڈائری کے کٹ آو¿ٹ بنانے والوں کو روزگار ملتا رہے گا۔ ڈائری سیاست کے تجربہ کار کانگریسیوں کو راجیش کھنہ کا گانا یاد ہوگا۔ یہ لال رنگ مجھے کب چھوڑے گا… (لال رنگ کا مطلب بوتل کا رنگ نہیں ہوتا۔)
آخر میں اتنا کہنا کافی ہے کہ ہمارے لیڈر اور حکمراں جماعت فائلوں پر تو بہت باتیں کرتے ہیں لیکن جب حق اطلاعات کے تحت فائلیں عوام کو دکھانے کی بات آتی ہے تو رنگ اڑنے لگتا ہے۔ اگر حق اطلاعات کے تحت تمام فائلیں، تمام ڈائریاں، تمام نوٹس عوام کی نظروں میں ہوں، تو لیڈران آنکھیں چراتے نظر آئیں گے۔