دعوت دینے کا سلیقہ

[]

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

حضرت یوسفؑ نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لیے موقع نکالا، اس میں ہم کو حکمتِ تبلیغ کا ایک اہم سبق ملتا ہے۔ دو آدمی اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعبیر پوچھتے ہیں۔ جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو میں تمھیں ضرور بتاؤں گا، مگر پہلے یہ سن لو کہ اس علم کا ماخذ کیا ہے جس کی بنا پر میں تمھیں تعبیر دیتا ہوں۔

اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپ ان کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فی الواقع کسی شخص کے دل میں اگر تبلیغ حق کی دھن سمائی ہوئی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو مواقع پر مواقع آتے ہیں اور وہ کبھی محسوس نہیں کرتا کہ یہ موقع ہے اپنی بات کہنے کا۔

مگر وہ جسے دھن لگی ہوئی ہوتی ہے وہ موقع کی تاک میں لگا رہتا ہے اور اسے پاتے ہی اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی موقع شناسی میں اور اس نادان مبلغ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع و محل کا لحاظ کیے بغیر لوگوں کے کانوں میں زبردستی اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر لیچڑپن اور جھگڑالوپن سے انھیں الٹا متنفر کر کے چھوڑتا ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے دعوت دین پیش کرنے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے۔ حضرت یوسفؑ چھوٹتے ہی دین کے تفصیلی اصول اور ضوابط پیش کرنے شروع نہیں کردیتے، بلکہ ان کے سامنے دین کے اس نقطہ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہل حق کا راستہ اہل باطل کے راستے سے جدا ہوتا ہے، یعنی توحید اور شرک کا فرق۔

پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقل عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان کے مخاطب تھے ان کے دل و دماغ میں تو تیر کی طرح یہ بات اتر گئی ہوگی، کیوں کہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کر سکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقاؤں کا، اور سارے جہاں کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی۔

پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آجاؤ، بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو، اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سوا ہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا، مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑ گھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مخاطبوں کےدین پر تنقید بھی کرتے ہیں، مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبے کے بغیر۔ (تفہیم القرآن، سورة یوسف، حاشیہ نمبر ۴۳)
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *