[]
سوال:- بیت المقدس کو قبلہ اول کیوں کہا جاتا ہے ، جب کہ اس کی تعمیر خانہ کعبہ کی تعمیر اول سے ۴۰ سال بعد ہوئی ہے ؟( محمد ندیم، کوکٹ پلی)
جواب :- بیت المقدس کو تعمیر کے اعتبار سے قبلہ اول نہیں کہا جاتا ؛ بلکہ قبلہ ہونے کے اعتبار سے قبلہ اول کہا جاتا ہے ، راجح قول کے مطابق نماز کا حکم مکی زندگی میں ہی آچکا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اور صحابہ کرام مکہ مکرمہ میں بھی نماز ادا فرمایا کرتے تھے ؛
البتہ مکہ کے حالات کی وجہ سے جماعت واجب نہیں کی گئی تھی ، مکی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نماز ادا کرتے تھے کہ کعبۃ اللہ بھی سامنے ہو اور بیت المقدس بھی ، پھر جب آپ نے ہجرت فرمائی اور مدینہ تشریف لے گئے ، تو وہاں کعبہ اور بیت المقدس دو مخالف سمتوں میں تھا ،
مکہ مکرمہ جنوب کی طرف تھا اور بیت المقدس شمال کی طرف ، تو آپ نے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کو ترجیح دی اور سولہ ، سترہ مہینے اسی طرف رُخ کرکے نماز ادا فرمائی ؛ کیوںکہ جن اُمور کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آتا تھا ،
ان میں آپ اہل کتاب کے طریقہ کو اختیار فرماتے تھے ، پھر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نازل ہوا کہ کعبۃ اللہ کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کریں تو کعبۃ اللہ قبلہ ہوگیا اور اب قیامت تک یہی قبلہ رہے گا ؛
لہٰذا چوںکہ پہلے بیت المقدس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے قبلہ بنایا تھا ، اس لئے اس کو قبلہ اول کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول مسلمانوں کو واپس دلا دیں ۔ وما ذالک علی اﷲ بعزیز ۔
٭٭٭