[]
حیدرآباد: تلنگانہ کے سابق وزیرو بی آرایس کے رکن اسمبلی ہریش راو نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست کے کسانوں کے دو لاکھ روپئے تک کے قرض کو معاف کیاجائے۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار میں آنے کے بعد کسانوں کے قرضہ جات معاف کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن چار ماہ سے ایک بھی کسان کا قرض معاف نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بینک کسانوں کو نوٹس دے کر انہیں قسطیں ادا کرنے اور لیے گئے قرضوں پر سود ادا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسان مالی بوجھ سے سخت پریشان ہیں۔ انہوں نے یہ واضح کرنے کا مطالبہ کیا کہ 2 لاکھ روپے کا قرض معاف کب کیا جائے گا۔ ہریش نے اس سلسلے میں وزیراعلی ریونت ریڈی کوکھلامکتوب روانہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلی نے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ تلنگانہ میں کانگریس پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد 9 دسمبر کو ایک ساتھ 2 لاکھ روپے کا قرض معاف کیا جائے گا۔اس بات پر یقین کرتے ہوئے ریاست کے لاکھوں کسانوں نے بینکوں سے فصل قرض لیا ہے۔
وزیراعلی کو اقتدار میں آئے تقریباً 4 ماہ ہو چکے ہیں۔ تاہم ایک بھی کسان کو ایک روپیہ قرض معافی نہیں دی گئی۔بینک کسانوں کو نوٹس پر نوٹس دے رہے ہیں۔ وہ اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ ان کا سرکاری گارنٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور انہیں لیے گئے قرض کی سود سمیت قسطیں ادا کرنا ہوں گی۔
متحدہ ورنگل اور متحدہ میدک اضلاع میں سینکڑوں کسانوں کو بینک نوٹس موصول ہوئے ہیں۔ اس سے کسان کافی پریشان ہیں۔ قرض پر سود بڑھ رہا ہے اور کسانوں پر مالی بوجھ بھاری ہے۔ بینک کسانوں کو نادہندگان کی فہرست میں شامل کر رہے ہیں۔
کسانوں کے بچوں کو تعلیم اور دیگر مقاصدکے لیے قرض نہیں مل پا رہے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے کسان شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔بی آر ایس پارٹی جو کے سی آر کی قیادت میں دو میعادوں کے لیے برسراقتدار تھی، نے دو بار 2 لاکھ روپے تک کے قرضہ جات معاف کئے۔
کسی ایک بینک نے کبھی بھی کسانوں پر قرض کی ادائیگی کے لیے دباؤ نہیں ڈالا۔ بی آر ایس حکومت نے بینکرس کو پیشگی یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم کسانوں کے ایک لاکھ روپے تک کے قرضہ جات معاف کر دیں گے۔ اس کے مطابق بینکوں کو سرکاری خزانے سے ادائیگیاں کی گئیں۔
اس کے نتیجہ میں لاکھوں کسان بغیر کسی پریشانی کے قرض کی معافی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن کانگریس حکومت نے قرض معافی کے سلسلہ میں کسی پالیسی کا اعلان نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس بجٹ میں قرض معافی کا کوئی ذکر ہے، اس لیے ریاست میں الجھن کی صورتحال ہے۔ حکومت نے بینکرس کو خود قرض ادا کرنے اور کسانوں پر دباؤ نہ ڈالنے کی ہدایت نہیں دی۔