[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غاصب صیہونی حکومت کو فلسطینی مزاحمت کے ہاتھوں ناقابل تلافی اور پے در پے شکستوں کے بعد اس رجیم نے سوموار کی شام ایک نئے حملے میں دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل خانے کی عمارت کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں قدس فورس کے کمانڈر جنرل محمد رضا زاہدی اپنے دیگر ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔
عراقی مصنف اور تجزیہ نگار قاسم سلمان العبودی نے مہر نیوز کے نامہ نگار کے ساتھ انٹرویو میں شام میں ایرانی قونصل خانے پر دہشت گردانہ حملے کو مزاحمتی محاذ کا سامنا کرنے میں صیہونیوں کی الجھنوں کی وجہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی میدان جنگ سے بھاگنے کی کوشش میں بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر اوچھی حرکتوں پر اتر آئے ہیں۔ جو کہ شام کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
مہر نیوز: پیر کے روز صیہونی حکومت نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت کو نشانہ بنایا۔ آپ کی نظر میں صیہونی حکومت اس دہشت گردانہ کارروائی کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟
عراقی تجزیہ نگار: صیہونی حکومت کو اسلامی مزاحمتی محور نے بند گلی میں پہنچایا ہے اس سے نکلنے کی کوشش میں اس رجیم نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے کو نشانہ بنایا۔
اس حملے میں ہمیں صیہونی حکام کی الجھن اور تذبذب واضح نظر آرہا ہے کیونکہ اسلامی مزاحمتی محور نے مقبوضہ فلسطین میں جو مجاہدانہ حکمت عملی شروع کی ہے اس کی وجہ سے صیہونی حکومت درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ایرانی قونصل خانے پر اس حملے کا مقصد اس مخمصے سے فرار کرنا ہے، کیونکہ اس رجیم کو زمین اور سمندر سے گھیرے میں ڈال کر مزاحمت نے متعدد حملے کیے ہیں۔
صیہونی حکام کے بیانات سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ وہ اس گھناؤنے اقدام کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم نے دمشق میں ایک ایرانی فوجی کیمپ کو نشانہ بنایا۔
وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے نتائج سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ کوششیں صیہونی حکومت کو اس حملے کے بین الاقوامی نتائج سے نہیں بچا سکتیں کیونکہ اس نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں سے ایک کے قونصل خانے پر حملہ کیا ہے. اس کے علاوہ کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر حملہ کرنا جو باقاعدہ اعلانیہ جنگ میں نہیں ہے، خود ایک طرح کی حالت جنگ کا اعلان سمجھا جاتا ہے۔
مہر نیوز: غزہ کی جنگ کو چھ ماہ ہوچکے ہیں اور اس دوران صیہونی حکومت اپنے جنگی اہداف میں سے کوئی ایک یدف بھی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ یہی وجہ کہ اسے مقبوضہ علاقوں کے اندر صیہونیوں کے زبردست احتجاج کا سامنا ہے۔ آپ کی رائے میں اس دہشت گردانہ حملے اور نیتن یاہو کی ناکامیوں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
شام میں ایرانی قونصل خانے پر صیہونی حملے کا ایک اور مقصد صہیونی رائے عامہ کے ارتکاز کو متاثر کرنا ہے، جو نیتن یاہو کی قیادت میں انتہائی دائیں بازو کی صیہونی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے سڑکوں پر آئی تھی۔ کیونکہ نیتن یاہو حماس اور قسام بریگیڈز کے ساتھ جنگ کو ہینڈل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
دوسری طرف فلسطینیوں کے پاس قابض حکومت کا مقابلہ کرنے کے جنگی وسائل تیار ہو چکے ہیں اور یہ ہتھیار صیہونیوں کے لیے نہ صرف خطرہ بن گئے ہیں بلکہ غاصب فوج کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔
اسی لئے صیہونیوں کی طرف سے ایران پر ہمیشہ یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ فلسطینی فورسز کی ترقی اور پیشرفت صرف ایران کے سبب ممکن ہوئی ہے اور ایران سے ہی وابستہ ہے، کیونکہ ایران فلسطینی قوم کی حمایت کا واضح طور پر اعلان کرتا ہے اور اس دہشت گردانہ حملے سے پہلے ایران کی آخری حمایت صیہونی قبضے کے خلاف برسرپیکار فلسطینی مزاحمت کے سربراہان کے استقبال کی شکل میں سامنے آئی۔
مہر نیوز: غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے صیہونی حکومت نے ایران کو براہ راست جنگ میں گھسیٹنے کے لیے خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے رسمی مقامات پر متعدد حملے کیے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں یہ رجیم اپنے اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہوگی؟
ہم سمجھتے ہیں کہ صیہونی حکومت کے دہشت گردانہ حملے کا اصل ہدف اسلامی جمہوریہ کو براہ راست فوجی تصادم کی طرف لانا تھا تاکہ غاصب رجیم کے لئے بین الاقوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران کا ردعمل صہیونیوں کی خواہش کے مطابق نہیں ہوگا۔ ایران اس دہشت گردانہ کارروائی کا مناسب وقت اور مقام پر تصادم کی نوعیت کے مطابق جواب دے گا۔