نہ جانے کونسی سازشوں کا ہم شکار ہوگئے

[]

سید سرفراز احمد (بھینسہ)

سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جس میں بدلے کی آگ کھولتے پانی کی طرح ہوتی ہے سیاست ایک عام انسان کو خاص بھی بنا سکتی ہے اور ایک خاص کو عام بھی،سیاست دشمنی کے دروازے تو کھول سکتی ہے لیکن سیاست میں کوئی بھی دشمنی مستقل نہیں ہوتی یہ صرف سیاست میں ہوتا ہے لیکن ابھی تک یہ سب بلا مذہبی سیاست کی نشانیاں ہوا کرتی تھی کیونکہ ایک جمہوری ملک کی یہی خصوصیت ہوتی ہے کہ جس میں مذہب سے اوپر دستور کو فوقیت دی جاتی ہے لیکن دن بہ دن بھارت کی سیاست میں بھی ایک بڑی تبدیلی رونما ہورہی ہے جو جمہوری انقلاب کا نہیں بلکہ جمہوری زوال کا شکارہوتی جارہی ہے جسکی کئی ایک مثالوں کے ذریعہ ہم یہ قیاس لگاسکتے کہ کس طرح فسطائیت اس ملک کی جمہوریت کو معدوم کررہی ہے آئین مخالف فیصلے لے رہی ہے اور کس طرح اس ملک کے مسلمانوں اور مسلم سیاسی قیادت کو کمزور کررہی ہے تاکہ انکی شبیہ کو ختم کردیا جائے یا مسلم سیاست کے نام کو مٹادیا جائے یہ وہی سیاست ہے جسکا عہد ایک سو سال پہلے لیا گیا تھا جسکی تعبیریں اور خواب سجائے گئے تھے آج اسی خواب کو پورا کرنے کیلئے مسلمان مکت بھارت بنانے کی مہم تیزی سے جاری ہے وہ دستور جو تمام مذاہب کی بھر پور عکاسی کرتا ہے وہ سیکولرزم جو ایک عرصہ سے مندر مسجد ہندو مسلم قومی یکجہتی کے تانے بانے ملک اور بیرونی ملک کے گوشے گوشے تک مشہور تھے وہ آج ماند پڑگئے ہیں وہ بین مذاہب تہوار جو ایکدوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوا کرتے تھے وہ سب نفرت میں بدل گئے ہیں جس عزت کی نگاہ سے ایکدوسرے مذاہب کا احترام کیا جاتا تھا وہ بھارت ایک ماضی بن کر رہ گیا ہے ملک کی ایک ایسی تصویر بنادی گئی جسمیں پورے بھارتی سماج کو منقسم کرکے رکھ دیا ہےجبکہ دستور جمہوریت اور سیکولرزم اب صرف اوراق تک محدود ہوکررہ گئے ہیں سچ کہیں تو اب اس ملک کی جمہوریت وینٹیلیٹر پر دستور بے روح کی طرح اور سیکولرزم گمنام چہرے کی طرح اپنی اپنی آوارگی میں مگن ہیں لیکن ابھی ملک کی جو سیاست میں باڑ آئی ہوئی ہے وہ ایک انتہائی خطرناک حالات کی طرف کا اشارہ دیتے ہوئے سائرن بجارہی ہے ابھی ملک میں کھل کر مسلم مخالف سیاست کا دھندا عروج پر ہے فسطائی طاقت چاہتی ہے کہ ملک کے مسلمان کو ہر سمت سے انتہائی کمزور کردیا جائے تاکہ وہ چت ہوکر کھڑا نہ ہوسکے خاص طور پر جن حالات سے مسلم سیاسی قیادت کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان حالات کی سنگینی کا مقصد مسلم سیاسی قیادت کو ختم کرنا ہے جو فسطائی طاقتوں کا سب سے بڑا منشاء سمجھا جاسکتا ہے۔
جمعرات کی شام اترپردیش کے مختار انصاری کی موت کی خبر نے پورے ملک کے مسلمانوں و سیکولر ہندو طبقہ کو تشویش میں مبتلاء کردیا سوشیل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمس پر ہر کوئی اپنے اپنے جذبات کا اظہار کرتا رہا کرنا بھی چاہیئے کیونکہ مختار انصاری کی اچانک موت نے ملک کے سیکولر گوشے کو سکتہ میں ڈال دیا رپورٹس کے مطابق مختار انصاری بانڈہ جیل میں سینے میں تکلیف کی شکایت کی جسکے بعد دواخانہ منتقل کیا جاتا ہے جہاں ڈاکٹرس انھیں مردہ قرار دیتے ہیں جتنی آسان موت پیش کی جارہی ہے معاملہ اسکے برعکس بھی ہوسکتا ہے چونکہ خود مختار انصاری نے بارہا اپنی پیشی کے دوران یہ شکایات کی تھی کہ انھیں سلو پائزن زہر دیا جارہا ہے لیکن انکی اس شکایات کو ہلکے میں لیا گیا یا یہ شکایت پہلے سے ہی سازش کا حصہ بنی ہوئی تھی؟ مختار انصاری کی موت کے بعد یہ ایک سوال بن کر رہ گیا جو بہت سے قلوب میں لہو کی طرح دوڑ رہا ہے ایسے ہی بہت طرح کے سوالات عوام کی جانب سے سوشیل میڈیا پر اٹھائے جارہے ہیں اور سابقہ مثالیں بھی پیش کی جارہی ہیں کہ کسطرح سال 2021 میں بہار کے جانباز ڈاکٹر شہاب الدین جو رکن اسمبلی رہ چکے ہیں جنکی نعش مشتبہ حالت میں پایا جانا کئی شک و شبہات کے دائرے میں گھر چکی تھی جنکی موت کو افراد خاندان نے سازش اور قتل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا جو دہلی کی تہاڑ جیل میں مقید تھے میڈیکل رپورٹ میں کویڈ انفیکشن موت کی وجہ بتائی گئی ایسے ہی پچھلے سال اپریل میں یوپی الہ آباد کے سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد اور انکے بھائی رکن اسمبلی اشرف کو جیل منتقل کرتے ہوئے پولیس کی سخت سکیورٹی اور میڈیا کی موجودگی میں سنسنی خیز طریقے سے تین قاتلوں کی جانب سے گولیاں داغی جاتی ہیں اور ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سلادیا جاتا ہے ایسے سنسنی طور پر قدآور مسلم سیاستدانوں کا ایک کے بعد ایک کھلے عام یا سازشی طور پر منصوبہ بند قتل ہونا کہیں نہ کہیں مسلم سیاسی بساط اور مسلم قیادت کو کھوکھلا اورکمزور کرنے کی سازشیں ہی ہوسکتی ہے اگر یہاں یہ بھی مان لیا جائے کہ عتیق احمد ہو کہ مختار انصاری بڑے بڑے مافیاؤں میں انکا شمار ہوتا ہے یا غیر قانونی کاموں میں ملوث ہونے کے یا کسی کے قتل کے ان پر الزامات بھی لگے ہوں تو ان الزامات کو مجرم بناکر ثابت کرنا عدالت کا کام ہے لیکن پولیس کی حراست میں قدآور سیاسی ملزمین کا قتل عام ہونا اور پولیس کی موجودگی میں مشتبہ موت ہونا یہ ہر کسی کی سمجھ سے پرے ہے اور پولیس کی نااہلی پر سوالیہ نشان بھی ہے۔
مختار نصاری ایک نڈر اور قابل سیاستداں رہے انھوں نے اپنا پہلا الیکشن1996 میں بھوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے امیدوار اورسال 2002 سال 2007 سال 2012 اور سال 2017 میں یوپی کے غازی آباد کے مئو سے رکن اسمبلی رہے جسمیں اگلے دو انتخابات آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑے اور کامیاب رہے 2009کے لوک سبھا انتخابات میں ناکام رہے اس کے بعد بی ایس پی نے 2010 میں انکو مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے نکال دیا تھا انھوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر قومی ایکتا دل کے نام سے اپنی خود کی جماعت تشکیل دی 2012 میں اترپردیش قانون ساز اسمبلی کا انتخاب غازی آباد ضلع کے مئو نشست پر قبضہ جمالیا 2017ء میں بی ایس پی کو قومی ایکتا دل میں ضم کرکے جیت درج کروائی تھی مختار انصاری بھارتی قومی کانگریس کے ابتدائی صدر احمد انصاری کے پوتے ہیں اور سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کے بھتیجے ہوتے ہیں مختار انصاری پانچ بار مئو سے رکن اسمبلی کی حیثیت سے جیت درج کروائی ہے جنمیں سے تین الیکشن انھوں نے ملک کی جیلوں میں رہ کر کامیابی کا جھنڈا گاڑا تھا یوگی نے کہا تھا کہ وہ برسر اقتدار آنے پر انکی حکومت لینڈ مافیا‘ مافیا ڈان کو انجام تک پہنچائے گی ۔ عتیق احمد اور مختار انصاری کی موت کو ہم اسی پس منظر میں دیکھ سکتے ہیں لیکن ان میں دو چیزیں غیر متوازن ہے ایک تو یوگی حکومت نے صرف مسلم قائدین کو مافیا ڈان کا نام دے کر جیلوں میں ٹھونس دیا دوسرا اگر جیل میں ٹھونس بھی دیا تو سزا دینا عدالت کا کام ہوتا ہے لیکن سازشوں کے تحت قتل کروایا جارہا ہے وہ بھی پولیس کی حراست میں کیا اس سوال کو عدالت پولیس اور یوگی حکومت سے نہیں پوچھے گی کہ پولیس کی حراست میں ایک رکن اسمبلی کی موت کسطرح ہوجاتی ہے حالانکہ سیاست اور سیاسی قائدین کی ایک لمبی فہرست مافیاؤں سے بھری پڑی ہے خود بی جے پی کے اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت پر متعدد مقدمات درج ہیں جو کئی ایک غیر قانونی کاموں میں ملوث ہیں ابھی الکٹرول بانڈ کی فائلس کھلنا بھی باقی ہے آنے والا وقت سب بتائے گا۔
ابھی چونکہ بی جے پی کے سر کی سطح سے پانی اوپر آرہا ہے الکٹرول بانڈ کا بھانڈا پھوٹ رہا ہے سپریم کورٹ کا بار بار غصہ کھا کر آخر کار ایس بی آئی شرمندہ ہوا اور الکٹرول بانڈ کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو سونپ دی جس سے بھاجپا گھبرائی ہوئی ہے اسی لیئے بھاجپا نے نیا پانسہ پھینکا اور سرکاری تفتیشی ادارے کے ذریعہ تلنگانہ سے کویتا اور دہلی کے وزیر اعلی ارویند کیجریوال کو گرفتار کروایا گیا تاکہ عوام اور میڈیا انکی گفت و شنید میں مگن ہوجائے اور بھاجپا کے سر پر منڈلا رہےالکٹرول بانڈ کے گھنے بادل کا سایہ چھٹ جائے کیونکہ میڈیا بھی سرکاری میڈیا جو بنا ہوا ہے آئینہ دکھانے کی اسمیں ہمت نہیں ہےلیکن الکٹرول بانڈ کا مسلئہ بھاجپا کیلئے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے مودی جی کا نیک جملہ نا کھاؤں گا نا کھانے دوں گا کی قلعی کھلنے والی ہے اسی الکٹرول بانڈ کے معاملہ کو عوام سے الجھا کر رکھنے کیلئے ایک کے بعد ایک پانسے استعمال کئے جارہے ہیں اور شائد مختار انصاری کے قتل کی سازش کو بھی اسی لیئے رچایا گیا کہ اکثریتی طبقہ یوگی حکومت کے اس کام سے خوش ہوجائے اور بھاجپا کا کیا ہوا پاپ پاک ہوجائے ہمارا تو ماننا ہیکہ مختار انصاری کی موت کہیں نہ کہیں اس آنے والے لوک سبھا انتخابات میں بھاجپا کیلئے موثر ذریعہ بنے گی جس کیلئے شائد پہلے سے ہی منصوبہ بندی کی گئی تھی بہر کیف بھاجپائی حکومتیں خواہ وہ ریاستی ہو یا مرکزی مسلمانوں کو ہر شعبہ حیات سے خواہ وہ سیاست،تعلیم، معیشت ،مدارس اسلامیہ،مساجد،یونیورسٹیز ان سب پر چاروں طرف سے گھیرا ڈال کر کمزور بہت کمزور بنانا چاہتی ہے تاکہ مسلمان کمزور ہوتے ہوتے خود انکے ماتحت بن جائے وقت ہے سنبھلنے کا اور سنبھالنے کا جاگتے رہنے کا جو زندہ قوموں کی نشانی ہے حالات سے سیکھنا اور سیکھ کر اپنے آپ کو تراشنااور مخالفین کی سازشوں سے نمٹنے کا یہی سب سے بہترین دفاع ہے کسی شاعر نے سازشوں کے پس منظر میں کیا خوب شعر کہا۔
نہ جانے کونسی سازشوں کا ہم شکار ہوگئے
جتنے صاف دل تھے اتنے داغدار ہوگئے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *