[]
مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)
یہ حقیقت ہے کہ ہر سلیم الطبع شخص حُسنِ کردار‘ حُسن اخلاق سے محبت کرتا ہے۔ ظلم و زیادتی ‘فسخ وفجور سے نفرت کرتاہے۔ اچھے اعمال ‘اچھے کارناموں کا ذکر کرنے اور سننے کو پسند کرتاہے، برے اعمال‘ ظالمانہ رویہ کو نا پسند کرتاہے۔ دین ِاسلام انسانی فطرت کے عین موافق ہے۔ جب نمرود ‘ہامان‘ شداد‘ فرعون کا ذکر آجائے تو دل ان سے نفرت کرنے لگتا ہے اس لئے کہ یہ اللہ کے دشمن‘ کافر‘ ظالم‘ جابر‘ فاسق‘ فاجر تھے انکی ظلم و زیادتی‘ فسق وفجور‘ بے دینی‘ بد عملی کتابُ اللہ سے واضح ہے ہر مسلم ان سے نفرت کرتاہے اسکے برعکس انبیاء‘ اولیاء‘ صلحاء‘ شہداء اور اچھے لوگوں سے الفت ومحبت کرتاہے اور تعلیماتِ اسلامیہ بھی انہیں باتوں کا درس دیتی ہے امام حسین واہل بیت عظام ؓسے محبت کرنا اور یزید ویزیدیوں سے نفرت کرنا ہی حق پرستی ہے ۔
ان کی الفت جب ہے عین الفتِ خیرالوریٰ
یوں ہوئے محبوبِ ربِّ ذوالکرم حضرت حسین
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یزید سے نفرت کرنا صحیح نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یزید نے دنیا کی طلب میں ایسے بڑے بڑے ظلم کئے اس سے قبل تاریخ میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ بعض نام نہاد مسلمان یزید کی تعریف میں تاریخی حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرتے ہیں جس کے ذریعہ یزید کے برحق ہونے کو ثابت کرنے کی نا کام کوشش کرتے ہیں وہ لوگ کہتے ہیں کہ امام حسین ؓ کی شہا دت سے یزید راضی نہیں تھا، ان کا اس طرح کہنا بالکل حقیقت کے خلاف ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو اس نے ابن زیاد کو معزول کیوں نہیں کیا؟ بلکہ اس نے تو ابن زیاد کو گورنری کے منصب پر باقی رکھا اور اسے مزید انعامات سے نوازا ۔
کیا اس کی مزید بدبختی یہ نہیں تھی کہ اس نے شہر مدینہ منورہ پر حملہ کا حکم نہیں دیاتھا؟ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے حرم پاک کی حرمت کو پامال کیا تھا وہ یزیدی ہی تو تھے جو یزیدکے حکم پر آئے ہوئے تھے۔ کیا مدینہ پاک کی حرمت کو پامال کرنے کا عمل درست ہے؟ اسی طرح مکہ مکرمہ و خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کا کس نے حکم دیاتھا؟ وہ کون ظالم لوگ تھے جنہوںنے مکہ مکرمہ وخانہ کعبہ پر حملہ کرکے اس کے تقدس کو مجروح کیا؟ وہ یزیدی ہی تو تھے جنہوں نے اسی ظالم کے حکم سے خانہ کعبہ کی عزت وحرمت کو پا مال کیا تھا۔ کیا یہ عمل قابل ستائش ہے؟(نعوذ باللہ ) بخاری شریف میں ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حرم شریف میں لڑائی کرنا حرام ہے یہاں لڑائی کسی کے لئے بھی جائزنہیں، یزید پلید نے اپنے نا پاک ارادوں سے اسلامی شعائر کو پامال کیا، یہاں غور طلب بات ہے کہ اس کے با وجود بھی کچھ لوگ اسے حق پرست جانتے ہیں، افسوس !کہ اسلام کے دعویدار ایک طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا زبان سے اظہار کرتے ہیں‘ دوسری طرف اہل بیت عظام کی کردار کشی کرتے ہوئے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک طرف مدینہ منورہ کی حرمت کو تسلیم کرتے ہیں اور دوسری طرف مدینہ پاک کی حرمت کو پامال کرنے والوں کی تائید کرتے ہیں۔ ایک طرف مکہ مکرمہ کی عظمت وحرمت کو مانتے ہیں دوسری طرف مکہ مکرمہ کی بے حرمتی کرنے والوں کی طرفداری کرتے ہیں۔ یہ کیسا ایمان واسلام ہے؟ اللہ ہمیں ایسی مسلمانی سے محفوظ رکھے۔
ظالم یزیدیوں نے نواسۂ رسول ؐ رضی اللہ عنہ کو صرف بے دردی کے ساتھ شہید کرنے پر اکتفا، نہیں کیا بلکہ آپ کے جسم اقدس سے کپڑے بھی اتارلئے ۔ اور گھوڑوں کی ٹاپوں سے آپ کی لاش مبارک کو پامال کرکے ہڈیوں کو چکنا چور بھی کیا پھرخیمے کی طرف بڑھے تمام اسباب اور سازو سامان لوٹ لیا یہاں تک کہ پردہ نشین خواتین کے سروں سے چادر یں تک کھینچ لیں اور خیموں کو بھی جلا کر راکھ کر دیا۔ اما م عالی مقام کا سر مبا رک خولی ِبن یزید کے ہاتھ ابن زیاد کے پاس بھیجا گیا اور باقی شہداء کے سر قیس ابن اشعث اور شمر وغیرہ کے ساتھ روانہ کئے گئے۔ امام عالی مقام کا سر انور جب کوفہ پہنچا اور بھرے دربار میں ابن زیاد کے سامنے ایک طشت میں رکھا گیا اس وقت ظالم ابن زیاد کے ہا تھ میں ایک چھڑی تھی جس سے وہ آپ کے لبوں اور دانتوں پر مارنے لگا۔ ــــ صحابی رسول ؐ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اس وقت وہاں موجود تھے اس گستاخی کو دیکھ کر تڑپ اٹھے اورآنکھوں سے آنسو بہنے لگے پھر ابن زیاد کو جھڑک کر فرمایا اے بدبخت اس جگہ سے چھڑی کو ہٹالے، خدا کی قسم میںنے اپنی آنکھوں سے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھاہے کہ وہ ان لبوں اور گالوں کو چوما کرتے تھے یہ کہکر وہ زار وقطار رونے لگے۔ابن زیاد نے کہا خدا تجھے خوب رُلائے اگر تو بوڑھانہ ہوتا اور تیری عقل خراب نہ ہوگئی ہو تی تو میں تیری گردن مار دیتا ۔ پھر ابن زیاد نے امام عالی مقام کے سرِ اقدس کو حصول ِ منصب و دولت کی خاطر یزید کے پاس بھیج دیا۔
علامہ ابن کثیرنے البدایہ والنہایہ میں اس بات کو یوں بیان کیاہے : لماقتل ابن زیاد الحسین ومن معہ بعث برؤوسھم الی یزید فسر بقتلہ اولا۔۔ الخ (البدایہ والنھایہ ) جب ابن زیاد نے حضرت سیدنا امام حسین ؓ کو ان کے رفقاء سمیت شہید کردیا تو ان کے سروں کو یزید کے پاس بھیج دیا ۔ یزید امام حسینؓ کے قتل سے اولاًتو خوش ہوا اور اس وجہ سے ابن زیاد کی قدر ومنزلت اس کے نزدیک زیادہ ہو گئی مگر قوم کے غم وغصہ و ناراضگی کی وجہ سے وہ خوشی پر زیا دہ قائم نہ رہ سکا بلکہ جلدی اپنے کئے پر نادم ہوگیا۔بے شک یزید نے ابن زیاد پر اس کے فعل کی وجہ سے لعنت تو کی اور اس کو برا بھلا کہا جیسا کہ ظا ہر ہے لیکن نہ تو اس نے ابن زیاد کو اس نا پاک حرکت پر معزول کیا اور نہ ہی اس کو سزا دی اور نہ ہی کسی کو بھیج کر اس کا یہ شرمناک عیب اس کو بتایا۔ یزید بد بخت کے حکم سے شہداء کے سروں اور اسیران کربلا کو تین روز تک دمشق کے بازاروں میں پھرایا گیا ۔ حضرت منہال بن عمروؓ سے مروی ہے : خدا کی قسم ! میں نے حسینؓ کے سر کو نیزے پر دیکھا اور میں اس وقت دمشق میں تھا ۔ سر مبارک کے سامنے ایک مسلمان سورہ کہف پڑھ رہا تھا ۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد امْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْکَہْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوا مِنْ آیَاتِنَا عَجَبا (کیا تو سمجھتا ہے کہ بے شک اصحاب کہف اور رقیم ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے)پر پہنچاتو اللہ تعالیٰ نے سر مبارک کو گویائی دی اور اس نے بہ زبان فصیح کہا: اعجب من اصحاب الکھف قتلي وحملي (سر الشہادتین) میرا قتل کیا جانا اور میرے سر کا نیزہ پر اٹھایا جانا اصحاب کہف (کے واقعہ )سے عجیب تر ہے۔
پھر یزید نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو اور اہل بیت اطہار کی خواتین کو مدینہ منورہ روانہ کیا۔ صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت مسلم بن عقیل کے ساتھ کوفہ میں سختی نہ کر نے کے سبب گورنری سے معزول کردئے گئے تھے ۔ یزید نے انھیں اہل ِبیت رسالت کا ہمدردسمجھ کر بلایا اور کہا کہ حضرت امام حسینؓ کے اہل وعیال کو عزت واحترام کے ساتھ مدینہ پہنچانے کا انتظام کرو ، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیس آد میوں پر مشتمل حفاظتی دستہ کے ساتھ اہل بیت کو لے کر مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوئے اور راستہ بھر نہایت تعظیم وتکریم کے ساتھ پیش آتے رہے ۔ مدینہ طیبہ کے لوگوں کو واقعہ کربلا کی خبر پہلے پہنچ چکی تھی۔ جب یہ لٹا ہوا قافلہ شہر میں داخل ہوا تو تمام اہل مدینہ ، حضرت محمد بن حنفیہ، ام المومنین حضرت ام سلمہ اور خاندان کی دیگر خواتین سب روتی ہوئی نکل پڑیں قافلہ سیدھے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضہ مقدسہ پر حاضر ہوا ۔ حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اب تک صبر و تحمل کا پیکر بنے ہوئے خاموش تھے ،جیسے ہی ان کی نظر قبر انور پر پڑی اور ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ نانا جان اپنے نواسے کا سلام قبول فرمائیے کہ ان کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا اور وہ اس طرح درد کے ساتھ روئے اور حالات بیان کرنے شروع کئے کہ کہرام مچ گیااور قیامت کا نمونہ قائم ہوگیا۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات مبارکہ یزید کی آزادیوں کے لئے بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ آپ کی شہادت کے بعد وہ بالکل ہی بے لگام ہوگیا پھر اس کی حکومت میں بے راہرویوں‘ہر قسم کی برائیوں کابازار گرم ہوگیا ۔
زنا ،حرام کاری ، سود اور شراب وغیرہ علانیہ طور پر رائج ہوگئے اور نمازوں کی پابندی اٹھ گئی ۔پھر اس کی شیطانیت یہاں تک پہنچی کہ سن ۶۳ھ میں مسلم بن عقبہ کو بیس ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ طیبہ اور مکہ معظمہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیجا۔ اس بد بخت لشکر نے مدینہ منورہ میں قتل وغارت گری اورطرح طرح کے مظالم کا بازار گرم کیا ۔ لوگوں کے گھر وں کو لوٹ لیا، سات سو صحابہ کو بے گناہ شہید کیا اور تابعین وغیرہ کو ملا کر کل دس ہزار سے زیادہ شہید کیا ۔ لڑکوں کو قید کر لیا اور یہاں تک ظلم کیا کہ سرکار ِدو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضہ مقدسہ کی سخت بے حرمتی کی، مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے، تین دن تک مسجد نبوی میں لوگ نماز ادا نہ کر سکے صرف حضرت سعید بن مسیب جو کبار تابعین میں سے تھے اپنے آپ کو مجنون ظاہر کرکے وہاں حاضر رہے ۔آخر میں ظالموں نے ان کو بھی گرفتار کرلیا مگر پھر دیوانہ سمجھ کر چھوڑدیا خبیث لشکر نے ایک نوجوان کو پکڑ لیا اس کی ماں نے مسلم بن عقبہ کے پاس آکر فریاد کی اور اس کی رہائی کے لئے بڑی منت سماجت کی ۔ مسلم نے اس کے لڑکے کو بلا کر گردن ماردی اور سر اس کی ماں کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا کہ تو اپنے زندہ رہنے کو غنیمت نہیں سمجھتی کہ بیٹے کو لینے آئی ہے ۔ مسلم بن عقبہ کی ہلاکت کے بعد حصین بن نمیر جو شامی لشکر کاسپہ سالار مقرر ہوا اس نے مکہ معظمہ پہنچ کر حملہ کردیا اہل حجاز یزید پلید کی بیعت توڑ کر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے ان کی فوج نے لشکر یزید کا مقابلہ کیا اور صبح سے شام تک لڑائی جارہی مگر فتح وشکست کا کوئی فیصلہ نہ ہوا ۔ دوسرے دن حصین بن نمیر نے منجنیق (پتھر پھینکنے کی مشین) کوہ ابو قبیس پر نصب کرکے پتھر برسانا شروع کیا ۔سنگباری سے حرم شریف کا مبارک صحن پتھروں سے بھر گیا۔ شامی پتھر برسانے کے ساتھ روئی اور کپڑے کے گولے بنا کر جلا جلا کر پھینکنے لگے جس سے خانہ کعبہ میں آگ لگ گئی اس کا غلاف مبارک جل گیا اور وہ دُنبہ جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بدلے میں قربان کیا گیاتھا اس کے سینگ تبرک کے طور پر کعبہ شریف میں محفوظ تھے وہ بھی جل گئے ۔حرم شریف کے باشندوں کا گھر سے نکلنا دشوار ہو گیا ۔تقریبًا۲دو ماہ تک وہ سخت مصیبت میں مبتلا رہے یہاں شامی لشکر کعبہ شریف کی بے حر متی میں لگا ہوا تھا اُدھر شہر حمص میں ۱۵ ربیع الاول ۶۴ھ کو انتالیس (۳۹)سال کی عمر میں یزید پلید آنتوں کے مرض میں مبتلا ہو کر تڑپتا بلکتا رہا اور موت کو یاد کرتا رہا‘ لیکن جلد موت نہیں آئی‘ مرض کی وجہ سے جسم سے بدبو آتی رہی اسی حالت میں وہ ہلاک ہوگیا ۔
ناپاک اور نجس تھی طبیعت یزید کی
گستاخ وبے ادب تھی جبلّت یزید کی
حد سے گزر چکی تھی شرارت یزید کی
مشہور ہو چکی تھی خباثت یزید کی
یزید کی ہلاکت کے بعد اس کے بیٹے معاویہ بن یزید کو تخت نشینی کیلئے کہا گیا تو اس نے یہ کہتے ہوئے تخت پر بیٹھنے سے انکار کر دیا کہ جو کرسی اہلِ بیت عظام کے خون سے رنگی ہو اس پر میں کس طرح بیٹھ سکتا ہوں؟ ۔ یزید کی داستاں یہیں پر ختم ہو گئی،قیامت تک اسے دنیا جابر ‘ ظالم ‘ فاسق کے نام سے یاد کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اہلِ بیت عظام سے محبت کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭