[]
مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786
دنیا بھرمیںبہت سےآزاد ادارے کام کررہے ہیں جہاں جہاں ظلم ہورہاہے اس پروہ نظررکھے ہوئے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ جمہوری ممالک میں بھارت اس حوالہ سےبحث کاموضوع بنا ہوا ہے۔ ہندوتوا کے قیام کے عنوان سےمختلف علاقوں میں دھرم سنسدکی آڑمیں جس زہرافشانی کاسلسلہ شروع ہواتھا وہ اب تک تھما نہیں ہے،اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں دنگے اور فساد ہورہے ہیں،ہجومی تشددنےمسلم اقلیت کا جینا دوبھر کردیا ہے، نوبت بایں جارسید کہ ہجومی تشددکے واقعات پرسپریم کورٹ نے اپنی ناراضگی جتائی ہے ،چنانچہ ۲۹؍جولائی کےاخبارات میں اس کامتن شائع ہواہے،لکھا ہے کہ ۲۰۱۸ء میں سپریم کورٹ کی طرف سےجاری کردہ تحسین ایس پوناوالےکےفیصلہ میں واضح ہدایات کے باوجودمسلمانوں کے خلاف ہجومی تشددکے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہواہے،سپریم کورٹ نے۲۰۱۸ء میں اس فیصلہ میں ہجومی تشددکوروکنے کےلئےمرکزی وریاستی حکومتوں کو جامع رہنما خطوط جاری کئےتھے ،ظاہرہےان واقعات کاوقوع نتیجہ خیزکاروائی کرنے میں تساہل برتنے،حکومتوں کی ناکامی اورجمہوری اقدارکی پامالی کااشارہ دےرہاہے۔
اس خصوص میں پر سپریم کورٹ نےروزجمعہ مرکزاوردیگرکئی ریاستوں کونوٹس جاری کرکےجواب طلب کیاہے،جسٹس بی آر گوائی اورجسٹس جےبی پاردی والاکےبنچ نےمذکورہ عرضی پرغور کرنے کافیصلہ کرتے ہوئے یہ نوٹس جاری کی ہے ،مرکزی حکومت کے علاوہ اڈیشہ، راجستھان،مہاراشٹر،بہار،مدھیہ پردیش اورہریانہ کی حکومتوں (پولیس سربراہوں کو)نوٹس جاری کرکے ان سے جواب طلب کیاہے۔
ایسے کئی واقعات ہیں جوآئے دن اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں،اس وقت ملک کی شمالی مشرقی ریاست منی پور میں تین ماہ سےتشددکاسلسلہ جاری ہے،جہاں درندگی کاننگاناچ ناچا جارہاہے،خواتین کو برہنہ کرکےگھمائی جانےاوران کی عصمتوں کوتارتارکرنے والےشرمناک واقعہ نےانسانیت کو شرمسار کردیا ہے اورابھی تک منی پورنفرت کی آگ میں جل رہا ہے، اقلیتی کرسچنس برادری زیادہ طورپر اس کی زدمیںہے اس کے خلاف گھنائونے جرائم کایہ سلسلہ آخر کب رکے گا؟خواتین کی عصمتیں کب تک تارتارکی جاتی رہیں گی؟اوربےقصوروں کو ناکردہ جرم کی پاداش میں کب تک موت کےمنہ میں ڈھکیلا جاتا رہے گا؟پتہ نہیںحکمراں طبقہ اس پرکیوںچپ سادھے ہوئے ہے؟اورکوئی ایسی مؤثرکاروئی کیوں نہیں کی جارہی ہے کہ جس سے ایسے انسانیت سوزواقعات پرروک لگ سکے؟ افسوس اس بات کاہے کہ جنسی تشدد،ہراسانی اورقتل غارتگری کےمجرمین آزادہیں۔
اول تومحکمہ پولیس ایسے مجرمانہ واقعات پرایف آئی آردرج نہیںکرتا ،چنانچہ منی پور کا یہ سانحہ ۴ ؍مئی کو پیش آیا تھا اور ۱۴دن بعد پولیس نے ایف آئی آر در ج کی ہے ،مذکورہ ججس نے سوال کیا کہ خواتین کو برہنہ گشت کروانے کا ویڈیو ۴؍مئی کو وائرل ہوا تھا پھرکیوںویڈیوکے کیس میں ایف آئی آر ۲۴؍جون کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کی گئی آخر پولیس کیا کررہی تھی، چنانچہ منی پور کے وحشت ناک واقعہ پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئےکہا ہےکہ ریاست میں درج ایف آئی آر کے سلسلہ میں اب تک کئے گئے اقدامات سے متعلق معلومات پیش کرے ،محکمہ پولیس کے بارے میں مزید کہا ہے کہ عدالت نہیں چاہتی کہ ریاستی پولیس کو اس کیس کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی جائے کیونکہ اس (پولیس ) نےہی عملا مظلوم خواتین کو فسادی ہجوم کے حوالے کیا ہے۔اس لئے عدالت نے فسادزدہ ریاست کی صورتحال کی نگرانی کے لئے سابق ججس پرمشتمل کمیٹی یا ایس آئی ٹی کی تشکیل د ینے کا اشارہ دیا ہے۔الغرض ہمارے ملک کی صورتحال یہ ہے کہ کسی دبائوکی بنا ایسے مجرمانہ کیسس درج کرلئے جاتے ہیں توان پرایسی ہلکی دفعات لگائی جاتی ہیں جس سے وہ معمولی سزاپاکرپھر سماج میں درندگی مچاتےاور شہریوں کا چین وسکون درہم برہم کرتے رہتے ہیں۔کئی ایک ایسے لیڈرس بھی ہیں جوان جیسے مجرمین کےپشت پناہ بنےرہتے ہیں۔
کشمیرکےعلاقہ کٹھوعہ کی معصوم آصفہ کے ساتھ چھ سات انسان نما درندےوہ بھی مندرمیں ایک ہفتہ تک درندگی مچاتے رہے، جنسی تشدد کےساتھ اس معصوم پرمتشددانہ ظلم ڈھاتے رہے، اس سانحہ پرکچھ دنوں تک اخبارات میں رنج وغم کے اور اظہارافسوس کےبیانات شائع ہوتے رہے ،بعض شرپسند تنظیموں کی جانب سے ان(مجرموں)کی گل پوشی کی گئی،اب اس کوکیا کہاجائےقلم لکھنے سےعاجزوقاصرہے،یہ سلسلہ اب تک بھی تھمنے نہیں پایاہے کئی ایک معصوم بچیاں اورخواتین جنسی تشدد کا نشانہ بن رہی ہیںاورموت کی آغوش میں پہونچائی جارہی ہیں۔ یہ مجرمانہ سانحات کیوں رک نہیں پارہے ہیںاس پرسوالیہ نشان لگ رہاہے،اورسنجیدہ امن پسندسیکولرذہن کے حامل شہری درد وکرب میں ڈوبےہوئے ہیںاورفکرمندہیں کہ ہمارابھارت کس راستہ جارہاہےاوردیگرممالک میں اس کی رسوائی کیوں ہورہی ہے، اس کی روک تھام میںحکومت کیوں ناکام ہے؟ ’’سب کا ساتھ سب کاوکاس اورسب کا وشواش‘‘کاحکومت نےنعرہ دیا اور ایک نعرہ یہ بھی دیا’’بیٹی بچائوبیٹی پڑھائو‘‘،ایسے محسوس ہوتاہے کہ یہ خوش کن نعرہ فضامیں تحلیل ہوگئے ہیں،ورنہ پورےملک میں ان نعروں کےاچھے اثرات دیکھے جاسکتے تھے،ان خوش کن نعروں سے متاثرہوکرشہریوں نےکئی خواب بنےتھےلیکن افسوس وہ سب کے سب چکناچورہوگئے ہیں،ان کی کوئی اچھی تعبیرہاتھ نہیں لگ رہی ہے،اس کےبرعکس گھنائونےجرائم کے واقعات میں روزبروزاضافہ ہے۔
بی جے پی ریاستوں میں کھلے عام قتل وغارتگری کے رجحان میں جواضافہ دیکھا جارہاہے،چہارشنبہ ۲؍اگست کے اخبارات نے اس کوشہ سرخیوں میں جگہ دی ہے،ہریانہ کےنوح ضلع میں جوفرقہ وارانہ تشددشروع کیا گیاتھااب وہ پڑوسی علاقہ گروگرام تک پہنچ گیاہےجہاں مسجدکو نذرآتش کردیا گیااورقابل احترام امام حافظ سعدکوشہید کردیا گیا،مزید دو مصلی بھی اس فائرنگ میں زخمی ہوئے ہیں، اخباری اطلاعات کے مطابق ان کی حالت بھی نازک ہےکسی بھی لمحہ وہ اپنی جان جان آفریں کے سپردکرسکتے ہیں، فرقہ پرستی پرمبنی ایجنڈہ کے اثرات کئی ایک ریاستوں میں دیکھے جارہے ہیں ۔گزشتہ ۲۴گھنٹوں کے درمیان ہریانہ اور دیگر ریاستوں میںمسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جاری تشد د کےشرمناک واقعات نوٹ کئے جارہے ہیں ۔
ممبئی ۳۱؍جولائی یواین ائی کی رپورٹ کے بموجب جئے پور سے ممبئی آنے والی سوپر فاسٹ ٹرین میں ریلوے پروٹیکشن فورس (آر پی ایف)کے جوان کانسٹبل چیتن سنگھ کو وائرل ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے دکھایا گیاہے کہ ’’ ہندوستان میں رہناہے تو مودی یوگی کو ووٹ دینا ہوگا‘‘اس نے مہاراشٹر کے پال گھر ریلوے اسٹیشن کے قریب چلتی ٹرین میں پہلے اپنے سرکاری خود کار ہتھیار سے اپنے سینئر اسسٹنٹ ۔اے ایس آئی تکارام مینا پر گولی چلائی جس سے وہ ہلاک ہوگئے پھر وہ ٹرین میں گھومتے ہوئے مسلمانوں کا حلیہ دیکھ کر فائرنگ کرنےکاسلسلہ جاری رکھاجس میں تین مسلمان مسافر شہید ہوگئے ہیں، ان شہداء میںبازار گھاٹ حیدرآباد کے ساکن سید سیف الدین بھی شامل ہیں جس پر سارا شہر مغموم ہے مرحوم شہید کی قیامگاہ پر پرسہ دینے والوں کا تانتابندھا ہوا ہے ،بتایا گیاہے کہ مرحوم کی تین بیٹیاں ہیں علی الترتیب جن کی عمریں چھ سال ڈھائی سال اور چھ ماہ ہیں ،مرحوم شہید مولاناسیدواجد پاشاہ کامل جامعہ نظامیہ کے حقیقی بھانجنےہیں، ان کےعلاوہ شہید ہونے والوں میں جئے پور کے اصغر عباس شیخ اورمدھوبنی کے عبد القادر ممبئی سیوڑی علاقہ کے محمد حسین شامل ہیں ۔
نئی دہلی یکم اگسٹ ۲۰۲۳ءکے اخبارات میں شائع اطلاع کے مطابق تین سال میں تیرہ لاکھ سےزائد خواتین لاپتہ ہیں، ملک میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے ادارہ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو(این سی آر بی کے فراہم کردہ اعداد وشمار کی بنیاد پر وزارت داخلہ نے بتایاہے کہ سال ۲۰۱۹ سے ۲۰۲۱کے درمیان تیرہ لاکھ تیرہ ہزار سےزیادہ لڑکیاں اورخواتین لاپتہ ہیں ،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کی لاپتہ خواتین کی تعداد دس لاکھ اکسٹھ ہزار چھو سواڑتالیس تھی ،جب کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کی اکاون ہزار چار سو تیںلڑکیاں بھی لاپتہ ہیں،رپورٹ میں ملک گیر سطح پر لاپتہ ہونے والی خواتین کی تعداد بھی دی گئی ہے اس کے مطابق سب سے زیادہ یعنی ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ خواتین مدھیہ پر دیش سے لاپتہ ہیں ،بی جے پی کی حکومت والی اس وسطی ریاست سے تین سال کے دوران اٹھارہ سال سے کم عمر کی اڑتیس ہزار دوسو چونتیس لڑکیاں بھی لاپتہ ہوچکی ہیں۔خواتین کے لاپتہ ہونے کے لحاظ سے مدھیہ پردیش سر فہرست ہے وزارت داخلہ کی طرف سے گزشتہ ہفتہ پارلیمنٹ میں پیش کردہ رپورٹ میں خواتین کے حوالےاس تشویشناک صورتحال سے آگاہ کیا گیا ہے ۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق لاکھو ںکی تعداد میں لڑکیوں وخواتین کا لاپتہ ہونا انتہائی سنگین مسئلہ ہے ،خاص طور پر ایسے وقت میں جب کہ موجوہ حکومت’’ بیٹی پڑھائو‘‘ اور ’’بیٹی بچائو‘‘ کا نعرہ دیتی ہے اس کے باوجودملک میں معصوم بچیوں کمسن لڑکیوں اور خواتین کی عفت وعصمت کی کوئی ضمانت نہیں ہے اعلی ترین عہدوں پر فائز افراد بھی خواتین پر مظالم اور جنسی ہراسانی کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں،اخباری اطلاعات کے مطابق ان کے خلاف کوئی مؤثر کاروائی کرنے اور انہیں عہدو ں سے بے دخل کرنے کے بجائے انہیں بچانے کی کوشش کی جارہی ہے ،ان کے خلاف الزامات عائد کرنے والی لڑکیوں کو ہی میڈیا کے ذریعہ رسواء کرنے کا سلسلہ جاری ہے ،ایک ایسے ملک میں جہاں تمام مذاہب کی خواتین احترام کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہیں، صورتحال یہ ہے کہ ہر چند منٹ میں عصمت ریزی کے واقعات پیش آرہے ہیں ،اس پر قابو پانے میں حکومت کیوں ناکام ہے ،اس پر سنجیدہ شہری تشویش میں مبتلا ہے ، خاطیوں کو جرم کی مناسبت سے سزادینے اور ان کو کیفرکردار تک پہونچانے کے بجائے ان کو حفاظت فراہم کی جارہی ہے اس تغافل کا نتیجہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے حوصلے بلند ہیں اور خواتین کے خلاف جرائم کی شرح میں کمی ہونے کے بجائے ہر آنے والے دن اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔
جمعرات ۱۳؍اگست کےاخبارمیں شائع شدہ خبرکے مطابق سپریم کورٹ نے ہریانہ کے نوح میوات میں فرقہ وارانہ تشدد کے پیش نظروشواہندوپریشد اوربجرنگ دل کی ریلیوں پرپابندی لگانے کی درخواست پرسماعت کرتے ہوئے اترپردیش ،ہریانہ اوردہلی کی حکومتوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کو یقینی بنائیں اور سماج میں نفرت انگیزتقاریراوربیانات کے علاوہ فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کےلئے از خودقانونی کاروائی کریں۔
جسٹس سنجیو کھنہ اورجسٹس ایس وی بھٹی کی بنچ نے اس طرح کے جلسوں میں ویڈیوگرافی اورسی سی ٹی وی فوٹیج کے استعمال کی ہدایت دی اورکہا کہ ہمیں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہوگا،بنچ نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجوسے کہا کہ اس بات پرکوئی تنازعہ نہیں ہوسکتا کہ نفرت انگیزتقاریر ماحول کو خراب کرتی ہیں،بنچ نے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ متعلقہ حکام تشدد اورنفرت انگیز تقاریر کو روکنے کےلئے مناسب احتیاط برتیں۔الغرض ملک گیرسطح پر لوجہاد، گائواسمگلنگ وغیرہ جیسےالزامات عائد کرتے ہوئے زہر افشانی کاسلسلہ جاری ہے،فرضی نارواالزامات کےتحت ہزاروں بےقصور نوجوان قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہےہیںان کا کوئی پر سانے حال نہیں ہے جبکہ حقیقی مجرمین آزاد ہیں۔مختلف ریاستوں میں بھولےبھالےشہریوں کواکسایاجارہاہےکہ وہ مسلم تاجرین سے خرید و فروخت نہ کریں،کرناٹک میں حجاب کے مسئلہ پر بڑا شور مچایاگیا اوراب مہاراشٹرکےعلاقہ ممبئی میں مسلم طالبات کو حجاب کےنام پرہراساں کرنے کامعاملہ سامنے آیاہے،چنانچہ این جی آچاریہ اینڈڈی کےمرٹھاکالج میں مسلم طالبات کو برقعہ وحجاب پہن کرداخل ہونےسےروک دیاگیاہے،ایک طرف ظلما تعلیم سے روکاجانااوردوسری طرف ’’بیٹی پڑھائو‘‘کا نعرہ دیناان دونوں میں کتنا تضادہے۔
الغرض بھارت کی فضاایسی زہریلی نہیں تھی یہاں تو صدیوں سےمختلف مذاہب کے ماننے والے کسی بھید بھائو کے بغیر پیار و محبت سے رہاکرتےتھے،بھارت کی اس ثقافت و تہذیب کو ملیامیٹ کردیاگیاہے،سوال یہ ہے کہ اس فضا کو پھر سے کیسے بحال کیاجاسکتاہے،ظاہرہے نفرت کاپرچارکرنے والوں کے خلاف سخت قدغن لگنی چاہیےتب کہیں جاکربھائی چارہ کی فضا پھر سے بحال ہوسکتی ہے،اس مسئلہ کے حل کےلئے تمام مذاہب کے پیشوائوں اورسیاسی وسماجی قائدین کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اورکوئی یقینی لائحہ عمل مرتب کرناچاہیےاورحکومت سےاس بات کامطالبہ کرناچاہیےکہ بھائی چارہ کی فضاکو مسموم کرنے والے افرادکوسخت سزائیں دی جائیں ،جرم کی مناسبت سے جب تک سزائوں کانفاذ نہیں ہوگا اس وقت تک اس فساد و بگاڑ کو روکاجاناممکن نہیں ہے۔
اسلام امن وآمان کےقیام اورکسی مذہب وملت کی تخصیص کے بغیر انسانیت سے جہاں پیارومحبت کاپیغام دیتاہےوہیں انسان دشمن عناصرکوجرم کی مناسبت سےسخت سزادینےکاحامی ہے، چنانچہ اس کےتعزیری قوانین بےمثل وبےمثال ہیں، اسلامی حدودوقصاص کے قوانین جہاں جہاں نافذہوں گےوہاں امن وآمان برقراررہے گا،غیرسماجی عناصرکی مثال زہریلے حشرات الارض جیسی ہے،ان کی رعایت کی جائے تو پھر دوسرے پرامن شہری ان سے ڈسےجاتے رہیں گےاورملک کاماحول سازگار نہیں ہوگا،ارشادباری ہے وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ’’عقلمندو!قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے اس باعث تم(قتل ناحق سے) رکوگے‘‘ (البقرہ؍۱۷۹)۔جب کسی قاتل کواس بات کاخوف لگارہے گاکہ وہ کسی کی جان لےگاتووہ بھی اس کی پاداش میں قتل کردیاجائے گا، یہ ڈروخوف ہی دراصل جرائم کی روک تھام میں مددگارثابت ہوگا،معاشرہ قتل خونریزی ،جنسی تشددوغیرہ جیسے جرائم سےمحفوظ رہ سکےگا۔لیکن جہاں انصاف کےتقاضے پورے نہ ہوں وہاں امن وآمان کے قیام کاخواب نہیں دیکھاجاسکتا۔
موجودہ حکمرانوں کاذہن یہ ہے کہ ایسی سخت سزائیں غیر انسانی اورظالمانہ ہیں،قتل کے بدلہ قاتل کوتختہ دار تک پہونچانے کوظلم اوربے رحمی تصورکرتے ہیں، اس کی تفسیرمیں حضرت مولانا پیرکرم علی شاہ رحمہ اللہ نےجوبات لکھی ہے اس کواپنی نگاہوں کاسرمہ بنالیاجائےتب بھی کم ہے،وہ لکھتے ہیں’’جس ملک کے قانون کی آنکھیں ظالم قاتل کے گلے میں پھانسی کا پھندا دیکھ کرپرنم ہوجائیں وہاں مظلوم وبے کس کا خداہی حافظ،وہ اپنے آغوش میں ایسے مجرموں کو نازونعم سے پال رہاہے جو اس کے چمنستان کے شگفتہ پھولوں کو مسل کررکھ دیں گے‘‘۔
٭٭٭